Sunday 14 August 2016

سرمایہ داری کا زوال


#سرمایہ داری کا زوال
سرمایہ داری کے زوال کا دور[Downfall of Capitalism]

ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی(The downfall of Capitalism ) کے زوال کا دور ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی اس انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو کہتے ہیں، جہاں حرص و حسد کے عقلیت کا غلبہ ہو۔ سرمایہ دار ہر وہ شخص ہے جو اپنے عمل کی توجیہ فروغ تصرف فی الارض میں گردانتا ہے۔ سرمایہ دار کے لیے دولت مند ہونا ضروری نہیں، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے، اسی طرح سیٹھ ولی بھائی چھوٹانی (تحریک خلافت کی انتظامی کمیٹی کے صدر ١٩١٩ء ۔ ١٩٢٣ئ) بھی دولت مند تھے لیکن وہ سرمایہ دار نہ تھے۔ سرمایہ دولت کا ظالمانہ استعمال ہے۔ جب دولت کے استعمال کا مقصد اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ بن جاتا ہے تو دولت سرمایہ بنادی جاتی ہے۔ انہی معنوں میں سرمایہ حرص و حسد کی تجسیم (Concrete Form) ہے۔ اور سرمایہ دار حرص و حسد کا بندہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ دولت کا درست استعمال اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہی ہے۔ ہر وہ مزدور، کسان اور مفلس شخص جو اس سرمایہ دارانہ عقلیت کو قبول کرتا ہے ایک سرمایہ دار ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنے نفس کو حرص و حسد کے شیطانوں کے سپرد کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت، معاشرہ کی اس تنظیم کو کہتے ہیں جہاں سرمایہ (یعنی حرص و حسد) کی عقلیت کی بنیاد پر اجتماعی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ہر معاشرتی ادارہ سرمایہ دارانہ مارکیٹ (Market) کے تعاقل کے ماتحت ہوتا چلا جاتا ہے۔ خاندان اپنے بچوں کو تعلیم اس لیے دلواتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ تمام اعمال کی قدر کا تعین زر کا بازار (Money Market) اور سرمایہ کار بازار (Capital Market) کرتا ہے۔ Sermaya dari ka zawal

سرمایہ دارانہ معاشرت کو #سول #سوسائٹی (Civil Society) کہتے ہیں۔ یہ مذہبی معاشرت کی ان معنوں میں رَد ہے کہ اعمال کی اقدار کا تعین (Determination) مذہبی نصوص اور احکام کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ بڑھوتری میں کتنا اضافہ کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں قدر (Value) کی غالب کی شکل قیمت (Price) کی ہوتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست (Republic) ہوتی ہے۔ یہاں اس عمومی اصول کو قبول کیا جاتا ہے کہ صرف وہ اجتماعی چیز جائز ہے جو Citizen کے تصرف فی الارض کو فروغ دینے کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کو Rousseau نے General will کہا تھا اور کہا تھا کہ اکثریت کی رائے دہی (General All) اس کی تردید کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج Citizen کی الوہیّت کے فروغ کے اس اصول کو Human Rights سے متعلق وہ دفعات فراہم کرتی ہیں جو ہر ریپبلیکن دستور کی Preambles میں لازماً شامل کی جاتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے غلبہ کی ابتدا پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہوئی جب چند یورپی شہری ریاستوں میں یہ نظام غالب آگیا۔ یورپی اقوام کے استعمار اور ریاستی دہشت گردی (بالخصوص امریکا میں جہاں دو صدیوں میں آٹھ کروڑ مقامی باشندے Red Indians قتل کیے گئے) اس نظام زندگی نے ترقی کی اور انیسویں صدی کے آخر تک تقریباً پوری دنیا پر اس نظام نے ریاستی غلبہ حاصل کرلیا۔ (انفرادیت اور معاشرت کی سطح پر اس نظام کو کبھی عالمی غلبہ حاصل نہیں ہوا) بیسویں صدی اس نظام کے زوال کی پہلی صدی ہے اور موجودہ دور میں یہ نظام مختلف النوع بحرانوں سے دوچار ہے۔
عرفان ذات کے ضمن سب سے اہم بحران عقلیت کا ہے وہ عقلیت جو سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں فروغ پائی، آج مہمل ثابت کردی گئی ہے۔ جس فکری تحریک نے یہ کام کیا اس کو پوسٹ ماڈرن ازم (Post Modernism) کہتے ہیں اور اس کے کلیدی مفکرینFoucault, Derrida, Deluze, Lyotard,Rerty ہیں۔ ان مفکرین نے ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ کلیدی تصورات بالخصوص آزادی (Freedom) اور ترقی (Progress) مہمل اور ناقابل حصول ہیں۔ انفرادیت لازماً انتشار (Fragmentation) کا شکار ہوتی ہے۔ اور اعمال کی معنویت کی جستجو محض لغتی کھیل (Language Game) ہے۔ کسی انفرادی یا معاشرتی عمل میں عقیدہ کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جاسکتی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت لازماً تحلیل (Deconstruction) کا شکار ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرتی اداروں کا سہارا لے کر اپنی جو معاشرتی صف بندی کی تھی وہ سب ان انحطاط پذیر ہے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی اجارہ داری کا شکار ہے۔ اور مسابقتی عمل Distort ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ Market کی کارکردگی سے Efficient اور Equitable نتائج برآمد نہیں ہوتے قیمت کے تعین کا کوئی معروضی (Objective) پیمانہ موجود نہیں۔ لہٰذا (Financial) اور کموڈیٹی (Commodity) بازاروں کی کارکردگی میں عدم استحکام (Disequilibrium) دائمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دو ہزار سات (2007)سے شروع ہونے والا بحران کسی صورت سے قابو میں آتا نظر نہیں آرہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ غلبہ کے دور میں جو واحد اجتماعیت قائم ہوئی تھی وہ تھی طبقہ (Class) کی اجتماعیت بیشتر سرمایہ دارانہ معاشروں میں مزدور سرمایہ دارانہ خطوط پر منظم ہوگئے تھے۔ اور مزدوروں کی طبقاتی تنظیمیں (Trade Unions and Social Democratic Parties)سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ کے لیے جدوجہد کرتی تھیں اس جدوجہد کی نظاماتی اہمیت کا ادراک سب سے واضح طور پر Keynes اور Boltow کی فکر میں ملتا ہے آج سرمایہ دارانہ عمل کے فروغ کے نتیجے میں یہ طبقاتی تنظیمیں سرمایہ دارانہ ریاست سے اس طرح منسلک ہوگئی ہیں کہ سرمایہ دارانہ عدل کی جدوجہد ناممکن ہوگئی ہے۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب یورپ امریکا میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ طالب علم، بے روزگار، پینشن یافتہ افراد، سرمایہ دارانہ پیداواری اور تجارتی عمل سے بے دخل کردیے گئے ہیں۔
مزدور تحریک کی جگہ ان New Social Movements مثلا حقوق نسوان کی تحریک، اغلام بازوں کی تحریک (جس کا سب سے بڑا پشت پناہ آج صدر اوباما ہے) ماحولیاتی تحریک نے لے لی ہے جو محض کھیل تماشا ہے اور سرمایہ داری کی ترتیب نو کی ضمن میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتی۔
سرمایہ دارانہ ریاستی انحطاط کا سب سے اہم مظہر جمہوری نظام کی شکست و ریخت ہے۔ میڈیا پر سرمایہ دارانہ غلبہ کے نتیجہ میں آراء کی تشکیل کا عمل عوامی نہیں رہا۔ لوگوں کی رائے میڈیا ساز (Media Crafted) ہوگئی ہے۔ اور جمہوری عمل تفریح (Entertainment) کا ذریعہ بن گیا ہے۔ نمایندگی (Representation) صرف سرمایہ کی ہے۔ یورپ میں کئی دہائیوں سے انتخابات میں ووٹرز کی شرکت مستقل گِر رہی ہے اور ١٩٤٦ء کے بعد سے کسی امریکی صدر کو عوام کے اکثریت کے ووٹوں سے منتخب نہیں کیا گیا۔ کوئی ووٹ کیوں دے جب کہ میڈیا کئی ہفتے پہلے ہی انتخاب کا نتیجہ بتادیتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی یورپی سیاسی فلسفی جمہوریت کے حق میں دلیلیں دیتا ہوا نظر نہیں آتا۔ Habermas جو آج کل سرمایہ دارانہ علمیت کا سب سے بڑا وکیل ہے نوحا کناں ہے کہ مکالمتی عمل (Communicative Action) اتنا Distort ہوگیا ہے کہ Dialogue جمہوریت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ (Alian Badiave) کہتا ہے کہ آج جمہوری عمل وہ زنجیر ہے جس سے عوام کے گھوڑے کو سرمایہ دارای کے اصطبل میں باندھا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ سرخیل ریاستیں پیہم عسکری شکستیں کھارہی ہیں۔ امریکا ذلیل ہوکر عراق سے بھاگ گیا اور مزید ذلیل ہوکر افغانستان سے بھاگنے کی تیاری کررہا ہے۔ لاطینی امریکا میں بلویا، اکواڈور، وینزویلا اور کیوبا اس کی سیاسی گرفت کو تاراج کرچکے ہیں۔ آج چند سو اوغر (Ughar) مجاہدین نے گانزو صوبے کے ایک بڑے علاقے سے چینی استعمار کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ اور سنکیانگ نے بھی پیش رفت حوصلہ افزا ہے ان حالات میں چین کسی دوسرے ملک میں عسکری کارروائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مسلسل اور ہمہ پہلو زوال سے آج انکار ممکن نہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کے متبادل کے خدوخال ابھی واضح نہیں ان معنوں میں ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس کی تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں مماثلت ہے۔ اس دور میں رومی انفرادیت معاشرت اور سلطنت تحلیل ہورہی تھی لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ نظام زندگی کی ترتیب نو کن خطوط پر ہوگی۔ اس دور میں رومی نظام زندگی کا اختتام Chronic حیثیت اختیار کر گیا تھا آج کی New Political Sociology موجودہ دورکو Liminal اور Transitional گردانتی ہے۔ Baudrillard اقرار کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ اقلیت کی گرفت انفرادیت، معاشرت اور ریاست کمزور پڑتی جارہی ہے اور غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست قائم ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ عقلیت کا دائرہ اختیار محدود ہورہا ہے۔ اور سرمایہ دارانہ انفرادیت معاشرت اور ریاست کے اندر سے غیر سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاست اُبھر رہی ہے۔ Daluze کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی Implode ہورہا ہے لیکن کیا یہImplosion ہے یہ محض ایک Complexification ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبد ِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

Decline of Capitalism
اسلامی رویثنزم:(Islamic Revisionism)
مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام زندگی بزور شمشیر مسلط کیا گیا اور ہمارا ابتدائی رد عمل عسکری جدوجہد ہی کا تھا۔ برصغیر میں اس عسکری جدوجہد کے انتشار کے بعد جمعیت علماء ہند ١٩٢٠ء میں قائم ہوئی، اور اس کے بعد سے علماء کے سواد اعظم نے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے بارے میں ایک مصالحانہ رویہ اختیار کیا اس رویہ کے دو اظہار تھے ایک رویہ برأت اور انخلا کا تھا۔ علماء اور صوفیاء نے ایسے دائرہ عمل تلاش کیے جہاں اسلامی انفرادیت اور معاشرت فروغ پاسکے اور اسلامی علمیت کا تحفظ کیا جاسکے، اس ضمن میں سب اہم اجتہاد مدارس کا ملک گیر قیام اور انصرام تھا اور یہ کارنامہ علماء بریلی اور علماء دیو بند نے بخوبی انجام دیا۔ دوسرا رویہ دُخول (Penetration) کا تھا اور اس کا اظہار تحریک خلافت اور جمعیت علماء ہند کے دستوری جدوجہد ہے۔ اس رویہ کےتحت سرمایہ دارانہ نظام حیات کے اُصول اور ترتیب میں وہ گنجائش تلاشکی گئی جس کے ذریعہ اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اقتدار کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس رویہ کو Islamic Revisionism کہا جاسکتا ہے۔
Islamic Revisionistرویہ سرمایہ داری کو ایک #نظامزندگی تسلیم نہیں کرتا (وہ اسلام کو بھی ایک نظام نہیں گردانتا) بلکہ جدا جدا سرمایہ دارانہ اعمال کو نصوص صحیحہ کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان اعمال میں کس نوعیت کی ترمیم اور تبدیلی کے ذریعہ ان کو تعلیمات شرعیہ کے مطابق بنایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ Islamic Revisionist اور Islamic Modernist میں بنیادی فرق ہے۔ Islamic Modernist مثلاً علامہ اقبال کی تشکیل جدید الٰہیات اسلامی (Reconstruction of Religious Thought in Islam) احکام شریعت کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے پیمانہ پر جانچتے ہیں اور ان احکامات میں ترمیم کرکے ان کو سرمایہ دارانہ عقلیت کے مطابق بناتے ہیں۔ یہ Islamic Revisionism کے بالکل برعکس عمل ہے۔ Islamic Revisionismاسلام کی سرمایہ کاری ہے۔ Islamic Modernism اور Islamic Revisionism میں مماثلث یہ ہے کہ دونوں رویے سرمایہ دارانہ نظام زندگی سے کسی تصادم کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس سے مصالحت کے قائل ہیں۔ ابتداً تصادم سے گریز کا یہ رویہ سیاسی میدان میں ظاہر ہوا اور جمہوریت اور دستوریت کی اسلامی کاری پر Islamic Revisionistجماعتوں نے پورا زور صرف کیا ١٩٧٠ء کے بعد سے سعودی عرب کی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ معیشت کی اسلامی کاری کی مہم جاری ہے اور اس مہم کی حکومتی سرپرستی کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلامی بینک اور اسلامی سرمایہ دارانہ ادارے قائم ہوگئے ہیں۔
زاہد صدیق مغل صاحب کے ان مضامین میں اسلامی جمہوریت اور اسلامی بینکاری کے ان تجربات کا علمی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا ہے۔ آپ کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس طریقہ سے اسلامی انفرادیت، معاشرت اور اسلامی نظام اقتدار استوار نہیں ہوتا بلکہ عملاً Islamic Revisionism اور Islamic Modernism سے ایک ہی نتیجہ ہی برآمد ہوتا ہے اور وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں اسلامی شخصیت، معاشرت اور اقتدار کا مغلوب ادغامSubordinate Subsumption)۔ اسلامی بینکاری اور اسلامی جمہوریت کو فروغ دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت ناممکن ہے کیوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید کے ثانی کے دور تک قائم رہنے والی ایک ہزار سالہ اسلامی معاشرت اور ریاست میں نہ کوئی اسلامی بینک موجود تھا اور نہ اسلامی مقننہ۔ Islamic Revisionismحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی طرف مراجعت اور غلبہ دین کو ناممکن سمجھتی ہے۔ وہ جہاد سے پہلو تہی برتتی اور سرمایہ دارانہ استعمار کے ہاتھوں ہم نے جو انیسویں صدی میں شکست کھائی اس کو دائمی تصور کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے قائل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں شمولیت کے ذریعہ اس سے مستفید ہورہی ہے۔ اس کے اکابرین کو اندازا نہیں کہ امت کے تشخص کو اس رویہ کے اختیار کرنے سے کتنا عظیم نقصان ہورہا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسلم زعماء سرمایہ دارانہ نظاماتی زوال سے واقف نہیں۔ وہ انیسویں صدی کے باسی ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ نظام ماڈرن تھا اور اس کی موثر مخالفت مشکل نظر آتی تھی اس کے باوجود مجاہدین اسلام نے جہاد سے پہلو تہی اختیار نہیں کی۔ آج جب سرمایہ دارانہ
نظام زندگی شکست و ریخت کا شکار ہے اور مجاہدین اسلام نے پے در پے شکستوں سے دوچار کیا ہے تو ایک مصالحتی حکمت عملی کم ہمتی اور نادانش مندی کے علاوہ اور کیا ہے؟ عملاً اسلامی بینک اور اسلامی جمہوریت کے داعی مجاہدین کے مخالف اور سرمایہ دارانہ غلبہ اور استحکام کے آلہ کار ہیں یہ ادارے غلبہ دین کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نظام زندگی کی تسخیر بنیادی طور پر جہاد و قتال کی کامیابی پر منحصر ہے۔ محض کسی علمی دعوتی یا روحانی پیش رفت سے یہ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اگر Virgoths, Hums, Vandul اور Vibengs رومی سلطنت کو پے در پے شکستوں سے ہم کنار نہیں کرتے تو نئے نظام اقتدار کے قیام کے لیے گنجائش فراہم نہ ہوتی اور عیسائی نظام حیات کا غلبہ ناممکن تھا۔ یہ بات تفصیل کے ساتھ Osuald Spengles نے اپنے مکالات میں ثابت کی ہے۔ یورپی عوام کی اکثریت نے عیسائی نظام زندگی رومن اقتدار کے خاتمے کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد اختیار کیا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے اگر سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو پے در پے عسکری شکستیں نہ دی گئیں اور پیہم علاقائی فتوحات کے ذریعے اس کے نظام اقتدار کو بے دخل اور منتشر نہ کیا گیا تو ہم اسلام کاری کے عمل سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے گے۔ تمام علمی، روحانی اور دعوتی کام سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں سموتا چلا جائے گا۔ اور غلبۂ دین کی جدوجہد تو درکنار اس کا تصور بھی معدوم ہوجائے گا۔
نظام زندگی علمی اور روحانی پیش رفت کے لیے ذریعے غالب نہیں آتے۔ وہ جہاد اور قتال کے ذریعے غالب آتے ہیں۔ کیوں کہ جہاد و قتال وہ مفتوحہ علاقہ جات فراہم کرتے ہیں جہاں نیا غالب نظام زندگی بتدریج مرتب کیا جاسکے۔ یہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر سلطان معظم خلیفہ عبدالحمید ثانی کے دور تک اسلامی ریاستیں مسلسل جہاد کرتی رہیں اور انہیں عسکری فتوحات نے ترتیب فقہ اور کلام، اُصول اور تصوف کے مواقع فراہم کیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرایا اور غزاوات کا آغاز سن ایک ہجری میں شروع کردیا تھا۔ اسلامی علوم کی تدوین کئی سو سال بعد ممکن ہوسکی۔
#جہاد کی اس ناگزیر اولیت کے شعور و احساس نے امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو یزید کے خلاف خروج عمومی برپا کرنے کے لیے تیار کیا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ایک سیکولر مملکت قائم اور مستحکم ہوگئی تو ایرانی اور بازنطینی نظام زندگی بے دخل نہ کیا جاسکے گا۔ اور اسلامی نظام زندگی کا تحفظ اور غلبہ ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا
باندھ کر سر سے کفن ہاتھ میں لے کر تلوار
ساتھ میں اپنے لیے صرف بہتّر انصار
دشت پُر ہول میں گھر بار لُوٹا کر اپنا
عصمتِ دیں کے لیے سر بھی کٹاکر اپنا
اپنے کردار میں قرآن کے معنی ٹھہرے
دین کے جن کا نبی بانی ثانی ٹھہرے
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان کامیابی اس سے عیاں ہے کہ اسلامی سلطنتیں ایک ہزار سال تک قائم رہی اور کبھی بھی سیکولر مملکتیں نہ بنیں، ان میں علوم اسلامی کا غلبہ رہا۔ شریعت نافذ رہی اور سلطان ظل اللہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سچے پیروکار اور مرید تھے۔ (اپنے ایک صاحب زادے کا نام بھی ابو بکر رکھا) سیدنا ابو بکر نے بھی جہاد اور قتال کی اولیت کو تسلیم کیا خلیفہ بنتے ہی جیشہ اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ فرمایا اور اپنے مبارک دورِ حکومت میں مستقل جہاد کرتے رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ملک کی تمام اسلامی قوتیں جہاد کی ضرورت اور اولیت کو تسلیم کرکے ملک میں جاری تمام روحانی، علمی، اصلاحی اور دعوتی کام کو عملِ جہاد سے مربوط اور منسلک کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنے دورِ انحطاط(Downfall/Decline) میں کب کا داخل ہوچکا ہے۔ اور مدت سے شکست و ریخت کا شکار ہے۔ آج اسلام کاری کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ آج اسلامی قوتوں کو مجاہدین اسلام کی عسکری پیش رفت کے نتیجے میں جو مواقع میسر نظر آرہے ہیں، ان سے فائدہ اٹھاکر تحفظ دین اور غلبہ دین کے ایک تطبیقی حکمت عملی مرتب کرنا چاہیے۔
#liberal #لبرل

سرمایہ درای کا کلمہ لا الٰہ الا انسان



سرمایہ درای کا کلمہ لا الٰہ الا انسان
#انسانیت پرستی کیاہے؟

انسانیت پرستی کی فکر اور اس کے ماتحت علوم انسانی (معاشرتی ومعاشی علوم) کا تانابانا یونانی فکر سے نکلتا ہے جیسا کہ پانچویں صدی قبل مسیح کا یونانی مفکر ’’پروتاغور‘‘ کہتا ہے:
’’انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے۔‘‘
یعنی اس کائنات میں مقصود بالذات ہستی انسان ہے اور انسان اسی کائنات کی ہر شئے کو اپنی مرضی Decision اور منشاء Will کے تابع کرنا چاہتا ہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک دراصل انسان کی اشتہاء اور خواہش ہی اس کا مقصود ہے اور جو کچھ اس کی خواہش ومنشاء کے مطابق ہے وہ سب کچھ خیر ہے۔ دراصل مغربی نظریہ انسان پرستی نے شہ کے حصول میں ہر لمحہ اس جیسا کوئی دوسرا انسان مذاحم ہے لہٰذاوہ شہ کے حصول میں اس شخص سے بھی بطور ایک شہ (Agent ) کے برتاؤ کرتا ہے اور وہ زندگی کے ہر موڑ پر وجود لغیریہ (Being other than itself) کے واہمہ میں مبتلا رہتا ہے۔ اسی لیے وہ ہر لمحہ مظاہر اشیاء کی فسوں کاری کا شکار رہتا ہے۔ دراصل انسانیت پرستی #Humanism مغرب کی کاروباری ذہنیت کی آئینہ دار ہے جس کی نمونوآبادی فکر سے ہوئی اور اس کی جڑ بنیاد ان نوآبادیاتی علاقوں سے چھینی گئی دولت پر رکھی گئی۔ اس مال مفت نے مغربی انسان کی اشتہاء کےلئے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس کو روایتی معاشرہ وتہذیب (عیسائیت) کے خلاف معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر بغاوت پر اکسایا اور انسانی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کرکے اس کو سرتا پا لذات پرست، قوم پرست، سرمایہ دار، #لبرل اور #سیکولر بنا دیا۔
چودھویں صدی سے انسانیت پرستی کو عروج حاصل ہوا اور خدا پرستی کی جگہ انسانیت پرستی نے لی اور اس فکر نے خدا اور کتاب (بائبل) سے رشتہ کاٹ کر نئے سرے سے رومی اور یونانی ادبیات وفلسفہ سے مغرب کا رشتہ جوڑا یہ تحریک دراصل مذہب اور عیسائیت سے بغاوت کی تحریک تھی۔ مذہب وعیسائیت کو ترک کرکے رومی اور یونانی فلسفہ وفکر کی روشنی میں وضع کیے گئے اور جن کی روشنی میں سائنس اور کاروبار صنعت Trade & Industry کو ان علوم کی روشنی میں انسانی ضروریات، خواہشات واشتہاء سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اس ضمن میں ہائڈیگر، ولیم جیمز، جان دیوی اور شلر کی کوششیں قابل ذکر ہیں۔ انسان پرستی یعنی Humanism کو بطور اصطلاح پہلی بار ’’شلر‘‘ ہی نے استعمال کیا تھا۔ انسانیت پرستی میں خاص طور پر اس دنیا میں زور دیا جاتا ہے جوبراہ راست انسانی تجربہ اور مشاہدے میں آچکی ہے۔
انسانیت پرستی کی اصل اور خصوصی اقدار Values نشاۃ الثانیہ Renaissance کے عہد سے وابستہ ہیں ان کی یہ اصلیت اور خصوصیت کسی اور عہد اور مقام Time & Space کے لیے موزوں نہیں۔ نشاۃ الثانیہ کے فلسفۂ انسان پرستی کا تعلق یونانی اور رومی فکر سے اس حد تک وابستہ ہے کہ یونانی وردی فکر بلاشبہ عقلی Rational اور غایاتی Telos پر مبنی تھا۔ یہ لوگ عقلی وجدان پر بھروسہ کرتے تھے۔ لیکن موجودہ انسانیت پرستی کی فکر کلیتاً حواس وادراک پر مبنی ہے۔ صرف Consumption لذت پرستی، افادۂ پرستی، انفرادیت پسندی کی دلدادہ۔ یونانی وردی فکر کے برخلاف انسانیت پرست عقل ووجدان کو حواس وادراک کا مماثل خیال کرتے ہیں۔ رومی اور یونانی فکر کے اصول ایک خاص روحانی (Moral) اصول پر قائم اور مقرر تھے لیکن موجودہ انسانیت پرستی کے فکری اصول مفروضات Axiome ، قیاسات Proposition پر قائم ہیں۔ دراصل یہی وہ بنیادی اصول ہیں جن پر مغربی طرز فکر کی اساس رکھی گئی ہے۔
رومی اور یونانی فکر میں قدرت یا فطرت کو ایک مقصد سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں میکانیت ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ گوکہ مغرب کی انسانیت پرست تہذیب اپنا تعلق ماضی میں رومی اور یونانی تہذیب سے وابستہ کرتی ہے اور اس تحریک کو عالمگیر بنانے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہے لیکن رومی اور یونانی تہذیب نے اپنے مقام سے نکل کر کبھی بھی اپنے نظریات واقدار کو عالمگیر بنانے کی سرمایہ کے زیر سایہ کوشش نہیں کی۔ انسانیت پرست اقدار کو عالمگیریت عطا کرنے کی یہ کوشش صرف نشاۃ الثانیہ کے عہد سے ہوکر سرمایہ داری کے عہد کی ایک کہانی ہے۔ جو بادشاہت سے جمہوریت تک دربار سے منڈی تک شیطان پرستی سے نفس پرستی تک زرپرستی سے سرمایہ پرستی اور نوع وقوم پرستی Nationalism سے خودپسندی اور مادر پدر، آزادی Freedom تک پھیلی ہوئی ہے۔

انسانیت پرستی کی ایک اجمالی تفہیم:

اگر انسان #پرستی کی تعریف انسانیت پرستی کے لٹریچر کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانیت پرستی Humanism کا مفہوم دنیوی بمقابلہ دینی، روحانی بمقابلہ اخلاقی، کشفی بمقابلہ عقلی، علمی بمقابلہ عملی کے ذریعے طے پاتا ہے۔ انسانیت پرستی کا مفہوم آزادی اور انتخاب کے ساتھ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ان ہی دونوں صلاحیتوں کی بنا پر وہ اپنی الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہی آزادی اور انتخاب کی صلاحیت انسان کے جذبات اور احساسات کو برانگیختہ کرکے اس کو خدا بیزاری پر ابھارتی ہے۔ تاریخی طور پر انسانیت پرستی کا مسلک اس جدوجہد کا غماز ہے کہ انسان خود اپنی الوہیت خصوصی کا مقصود یہ ہے کہ انسان کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مقصود کل کی شکل میں پیش کیاجانا چاہیے تاکہ انسان اپنے دعویٰ میں حقیقت کا روپ بھرسکے اور یہ خیال کیا جانے لگے کہ اس کی ہر حرکت نیکی وفلاح کا نتیجہ ہے اور وہ جو بھی اعمال انجام دیتا ہے وہ فلاح ہی فلاح کا نتیجہ ہے اور وہ جوبھی اعمال انجام دیتا ہے وہ فلاح ہی فلاح ہے اور اس کی یہ تمام خوبیاں باہم مربوط ہیں اور اس کی الوہیت حق کے نصب العین کی مختلف کڑیاں ہیں وہ چاہے تو روشنی میں سایہ اور سایہ میں روشنی پید اکرے اور اس دنیا کی ہماہمی انسانی مہاپرش ہے اور ایک عظیم ہستی اس لیے اس کا ہر عمل مسرت Pleasure کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔
انسانیت کا فلسفہ اقدار Values کے بجائے ضروریات Needs پر زور دیتا ہے نیز محبت Love کے بجائے مسابقت Competetion کو اہم قرار دیتا ہے تاکہ انسان اپنی تمام تر باطل جبلتوں کو بروئے کار لاکر الوہیت کا حق دار بن جائے اور ’’لاالٰہ الا انسان‘‘ کہنے کا مکلف بن جائے۔ وہ اپنی اسی روش اور صلاحیتوں کی بنا پر اپنے نفسی نظریات واستحقاق کو قائم بالذات حیثیت دے کر رد یا پسند کرنے کا اختیار رکھتا ہے یعنی وہ جو چاہے سو چاہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک انسان ہی وہ ہستی ہے جو اپنے حصول مقصد لاقانونیت وابدیت کی طرف گامزن ہے۔ اس حصول مقصد کے تحت وہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سے وہ اپنی اس ابدیت والوہیت کے اختیار کی بنا پر دائرے کے تمام حصول اور تمام افقوں پر یکساں نظر رکھ سکتا ہے۔ یہ تمام دائرے اور افق صرف اس کے حال سے وابستہ ہوتے ہیں اسی لیے ہر انسانیت پرست ابن الوقت ہوتا ہے اس کی ہر کوشش حال کو مزین کرنے پر صرف ہوتی ہے، اسی لیے اس نصب العین ہم عصر زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ وہ آنے والے حال یعنی جنت اور زندگی بعد کا کوئی ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو صرف عمرانی علوم کے ذریعہ دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اور اسے اپنے حسب منشاء وحسب حال بنانا چاہتا ہے۔ دنیا اور اس کے لوازمات کو اپنی خواہشات اور مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت وہ تسخیر کائنات کرنا چاہتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت وہ تسخیر کائنات کرنا چاہتا ہے۔ اسی جذبے کو ہوا دے کر انسان کو مافوق الفطری انسان یعنی Superman بنایاجاتا ہے۔ اسی لیے انسانیت پرستی مذہب اور خدا کے خلاف احتجاج کا نام ہے۔ یہ ان خیالات کا پرتو ہے جن کو موجودہ زمانے میں Modrn World میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ Moderinisation اور صنعتی انقلاب Industrial Revolution حضرت انسان کو اتھاہ تاریکی اور انتہائی کرب میں مبتلا کرچکی ہے۔ اس صنعتی انقلاب نے فکر اخروی کی جگہ دولت اور مادی اشیاء کے حصول کی خواہش کو برانگیختہ کیا۔ انسانیت پرستی کے ساتھ اشتراکیت کے تال میل نے دہریت اور مادیت کو مزید ترقی دی۔ صنعتی انقلاب کے زیرسایہ مالیاتی انقلاب نے ایک امربیل کے طور پر آفرینش حاصل کی اور اس مالیاتی انقلاب نے بینک، مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنلز کی شکل میں الوہیت نفس کی خواہش کوووٹ اور نوٹ (زر) کی شکل میں مجسم کیا، جس کے تحت انسان اتکاز سرمایہ (Capital Accmunlation ) کو الوہیت کے حصول اور ازلی زندگی کی خواہش کے نتیجہ کا پیش خیمہ سمجھنے لگا۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر عہد حاضر کا تمام زور تخیل وفکر خواہ انسانیت پرستی کی کسی بھی شکل حقوق انسانی، حقوق حقوق طفلاں، گرین پیس، ماحولیات وغیرہ، میں ہو وہ سب کا سب اتکاز سرمایہ کے عمل پر مرکوز ہے دراصل ارتکاز سرمایہ کی خباثت کو چھپانے کے لیے ہی ہیومن رائٹ کے مختلف طرائق، پیرائے اور اسالیب وضع کیے گئے ہیں۔

انسانیت پرستی اور لافانیت کی امید: (Hummanism & Eternality)

انسانیت پرست کہتے ہیں کہ لاقانونیت کی خواہش کا مسئلہ اصل انسانی مسئلہ ہے۔ لاقانیت کی اس خواہش کو وہ اپنی Metaphysics مابعدالطبیعات (الٰہیات) کہتے ہیں۔ لافانیت Elenality کی اس طرح کی خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نے اب تک غیرمعمولی کارنامے انجام دئیے ہیں۔ لافانیت Etenalaty کی اس طرح کی خواہش کا اظہار انسانی تاریخ کے مصدقہ ریکارڈ میں کہیں نہیں ملتا۔ لافانیت کی یہ خواہش خاصہ ہے موجودہ جدید دور نے انسان کی خواہش الوہیت کا جو مغرب ہے موجودہ جدید دور کے انسان کی خواہش الوہیت کا جو صرف مغرب کے باطل مادی فکر کا کارنامہ ہے۔ آج کا مغربی انسان لاقانونیت کی زبردست خواہش رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ اس حیاتیاتی Biological حادثہ سے ماورا ہے جسے موت کہاجاتا ہے۔ لیکن انسان مسلسل ایسی سرگرمیوں کا متلاشی ہے جو اس کی حیاتی زندگی کو طویل سے طویل تر کرسکے۔ اس لیے کہ میں جولافانیت کے حصول کے لیے جو بھی کام کرنا چاہتا ہون مجھے اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ وقت نہیں جواب تک ختم ہوچکا ہے بلکہ وہ وقت آنے والا ہے۔ چنانچہ میں اس عبوری وقفہ میں اپنی صلاحیتوں کو لافانیت کے حصول کے لیے صرف کرتا ہوں کسی کام یا کسی شوق کو انجام دینے کے لیے جن صلاحیتوں، قابلیتوں اور قوتوں کی ضرورت ہے انہیں برقرار رکھنا ہی زندگی ہے ان صلاحیتوں، قابلیتوں اور قوتوں کا صحیح اظہار ارتکاز سرمایہ میں پنہاں ہیں۔ ارتکاز سرمایہ ہی وہ شکتی یا مخفی قوت ہے جو مجھے اور میری صلاحیتوں کو لافانیت عطا کرتی ہے۔ یہی ارادہ کی وہ آزادی ہے۔ یہی وہ کام ہے جو اس لمحے سے ماورا ہے جسے موت کہتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے جینا مرنے سے انکار کرنا ہے۔ ارتکاز سرمایہ Capital Accumulation اور بچت Saving ہی میری کل آنے والی دلچسپیوں کی امید برقرار رکھتی ہے اور اس سلسلہ لامتناہی کو برقرار رکھتی ہے جس کو زندگی کہتے ہیں۔ یہی جینے کا مقصد اور جینے کی آروزو ہے جو تمام جزوی خواہشوں کی بدیہی حقیقت ہے جس نے ہر خواہش کو اتکاز سرمایہ کی خواہش میں مجتمع کردیا ہے۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک موت ایک عالمگیر دشمن ہے س لیے اس خوفناک مقہور کے خلاف صف آراء ہونا انسان کو یہ امید دلاتا ہے کہ وہ ایک دن موت پر غالب آجائے گا اور اپنی الوہیت کے مقصد کو تسخیر کائنات کی شکل میں مافوق الفطری انسان بن کر حاصل کرلے گا۔ انسانیت پرستوں کے نزدیک لافانیت کا مطلب ہے کہ زندگی کا کھاتہ کبھی بند نہیں ہوتا، دیوالیہ پن کی نوبت کبھی نہیں آتی، کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں ہوتا۔ لافانیت کی خواہش انسا ن کو مستقبل کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ جہاں حال سے زیادہ کامیابی ومسرت ذاتی کا حصول ممکن ہے۔ اس لیے ہر انسان کو اپنی موجودہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوشش اس وقت مسرت ولافانیت سے سرشار ہوگی جب اس کے پاس زیادہ سے زیادہ سرمایہ ہوگا۔
دوسری طرف حیات بعد الموت کی دنیا مذہبی تخیل کی دنیا ہے ایک ایسی فرضی دنیا جس تک رسائی اس دنیا میں ممکن نہیں۔

نعوذباﷲ من ذالک ھذا الاعتقاد الفاسد:

’’اے بار خدا ہم مسلمانوں کو محفوظ فرما ہر باطل بھٹکی ہوئی گمراہی سے۔‘‘
مغربی تہذیب اور مغربی فکر سے مراد وہ طرز زندگی اور وہ نظام ہے جو قدیم یونان سے شروع ہوکر موجودہ جدیدیت (ماڈرن ازم) اور پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) میں آکر اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ مغربی فکر کی اساس ’’عقل‘‘ کی برتری پر رکھی گئی ہے عقل ہی سب کچھ ہے اور یہی الٰہ ہی بن چکی ہے، مغرب اس کی پرستش میں مصروف ہے۔ لہٰذا صداقت صرف وہی ہے جسے ہم خواس خمسہ سے معلوم کرسکیں۔ خد ااور روح کے تصورات کو اسی لیے مغربی علوم سے خارج کردیا گیا کہ وہ حقیقت ہی نہیں جو حواس کی گرفت میں نہ آسکے، جسے عقل محسوس نہ کرسکے اور جو ماورائے عقل ہو لہٰذا مغرب میں ’’حق‘‘ (Right) اور انسان (Human) کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہے اور خیر صرف اس آرزو تمنا اور خواہش کا نام ہے جوکسی انسان کے دل میں مچلتی ہے اور اپنے لیے عمل کا پیرہن تلاش کرتی ہے۔ خواہش نفس الٰہ ہے (جسے قرآن نے شرک سے تعبیر کیا ہے) مغرب کسی مذہب، کسی خدا، کسی اخلاقی قدر، کسی فقہ، کسی شریعت، کسی وحی اور کسی قانون کو نہیں مانتا، وہ انسان کے رب ہونے کا مدعی ہے اور نفس انسانی کو وحی الٰہی بلکہ ’’الٰہ واحد‘‘ تسلیم کرتا ہے اور خواہش نفس کی غلامی کو مقصد زندگی مانتا ہے۔ مغرب کا خیر وشر کا معیار صرف اور صرف نفسانی خواہشات کا حصول ہے۔ اس کے علم کی بنیاد ایمان پر نہیں شک (Doubt) پر کھی گئی ہے اور علم کا واحد مقصد تسخیر کائنات رہ گیا ہے۔ اس تہذیب کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ فر د کی پرستش کے باوجود یہ ’’تہذیب فرد کی داخلی کیفیات کا کوئی ادراک نہیں رکھتی۔ یہ تہذیب عرفان ذات سے قاصر تہذیب ہے۔ اس کی دنیا اور اس کا قلب دونوں بے نور ہیں۔ دل کی دنیا کو تاریک کرنے والی یہ تہذیب خدا کی موت کی قائل ہے لہٰذا وہ کسی اخلاقیات کو ماننے پر تیار نہیں ۔ اس تہذیب کی نظر میں فرد کی زندگی کے چار مقاصد ہیں: (1) دولت (2) آمدنی (3) قوت (4) اختیار۔ یہی اقدار مطلق ہیں اور انہیں اضافے کی جدوجہد ہی حاصل زندگی ہے۔ اس تہذیب کا ایک نعرہ ’’مذہبی آزادی بنیادی ہے‘‘ ایک دل فریب نعرہ ہے۔ لبرل ازم کا سب سے نمایاں فلسفی John Rawls اپنی کتاب #Political #Libreralism میں لکھتا ہے کہ ’’مذہبی آزادی کو لبرل ازم کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کردیں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا امراض کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔‘‘
فکر مغرب بندے کو رب مانتی ہے ، وہ الوہیت انسا نی کی قائل ہے جبکہ اسلام عبدیت اور عبادت کا قائل ہے، عبدیت قرب کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بندے ہونے پر فخر فرمایا اور اسے انسانیت کی معراج قرار دیا ہے۔ مگر مغرب عبد کے بجائے انسان کو رب تسلیم کرتا ہے۔ اسلام میں یہ اللہ کا بندہ ہے، وہاں نفس کا بندہ، بلکہ اپنی ذات میں خود خدا ہے۔ اس فلسفے سے انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کے فلسفے اٹھے اور فرائض پس پشت چلے گئے، انسان اور حقوق ہی زندگی کا اصل مقصد بن گئے۔ مغرب کے عالمی نظریہ World View کا محور ومرکز انسانی (Humanities) ہے جبکہ اسلام کا مرکز ومحور خدا ہے۔ اسلام خدا پرستی کا قائل ہے جبکہ مغرب انسان پرستی کا علمبردار ہے۔
#لبرل #liberal

سرمایہ دارانہ شخصیت کے اجزائے ترکیبی



سرمایہ دارانہ شخصیت کے اجزائے ترکیبی
#Constituents of #Capitalism #Personality

مغرب اور اسلام کا تصور خیر اور حق

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری-

اس باب میں اختصار کے ساتھ مغربی مفکرین کے حوالے سے اس تصورِ حق (Right)اور تصورِ خیر (Good) کی وضاحت پیش کروں گا جس تصورِ حق اور تصورِ خیر پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہیں ۔

میں ان مفکرین کے اساسی تصورات اور فکر پیش کروں گا اس جائزے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلام کے تصورِ حق و خیر اور مغرب کے تصور ِحق و خیر میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں ہے اور دونوں نظام ہائے حق و خیرایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کے مابین کسی قسم کا مکالمہ ممکن نہیں ہے۔

اس وقت کرنے کا کام یہی ہے کہ ان مغربی مفکرین اور فلاسفہ کا اسلامی محاکمہ پیش کریں جن کے نظریات پر مغربی تہذیب اس کا فلسفہ اور اس کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا علماء اور طالب علموں کی توجہ کے لیے چند عمومی باتیں بڑے بڑے مغربی مفکرین اور فلاسفہ کے حوالے سے مختصراً پیش کی جا رہی ہیں۔

کسی بھی نظام فکر میں سب سے بنیادی مسئلہ تصور ذات یعنی Self کا مسئلہ ہے۔ میں مغرب کی اصطلاحات ہی استعمال کروں گا ۔ Selfکو Selfہی کہوں گا ذات نہیں کہوں گا اور دوسرے تصورات بھی انہی کی اصطلاح میں بیان کروں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً مجھے ان کا ترجمہ معلوم نہیں ، دوسرے یہ کہ تصورات (Concepts)کا ترجمہ پیش کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ مثلاً حیا کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا یا غیر ت کا کوئی ترجمہ انگریزی میں نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی معنوں میں سمجھتا ہوں کہ Selfکا کوئی ترجمہ ممکن نہیں ۔ جیسے Ontology۔ اس کا کوئی ترجمہ ہمارے ہاں بہت مشکل ہے ۔ یہ علمائے کرام ہی کا کام ہے کہ ان مغربی تصورات کا اسلامی محاکمہ کریں اور اسلامی علوم میں ان کی کیا حیثیت ہے، اسے واضح کریں۔

گفتگو کا محور بیسویں صدی کا فلسفہ ہے ۔ لیکن بیسویں صدی کے فلسفہ میں تصور فرد (Theory of Self)یا تصورِ ذات کو سمجھنے کے لیے چند اجمالی باتیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے نمایاں فلسفیوں کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی صف اول کا مابعد الطبیعیات دان (Metaphysician) پیدا نہیں ہوا ہے۔ یا کم ازکم میری ناقص رائے میں ایسا ہی ہے۔ مغرب فکری(Intellectually) طور پر بانجھ ہے ۔ بالخصوص الہٰیات اور مابعد الطبیعیات کے دائرے میں بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی بنیاد ی کام نہیں ہواہے ۔ بنیادی طور پر اٹھارویں صدی اورانیسویں صدی کے مفکرین کے کام پر نئی شرحیں لکھی گئی ہیں ۔ یہ بات ما بعد الطبیعیات اور اخلاقیات دونوں شعبوں کے بارے میں بلاخوف کہی جا سکتی ہے۔

اٹھارویں صدی میں جس فکر نے عیسائیت کو شکست دی اس کی دو شاخیں تھیں۔

١۔ تحریک تنویر(Enlightenment) ٢۔ تحریک رومانویت(Romanticism)

یہ دونوں تحریکیں مغربی تہذیب کی روح رواں ہیں۔ مغربی تہذیب کے بنیادی آدرش انہی تحریکوں سے حاصل ہوتے ہیں اور مغربی تہذیب کے بنیادی تصورات، عقائد و افکار و نظریات فی الحقیقت تحریک تنویر اور تحریک رومانویت ہی سے نکلے ہیں۔

تحریک تنویر کی علمیات:

یہ دونوں تحریکیں بنیادی طور پر وحی کا انکار کرتی ہیں ۔ انہی معنوں میں یہ عیسائیت کا بھی انکار ہیں ۔ پروٹسٹنٹ(Protestanism) عیسائیت نے اس انکار کا اولین جواز فراہم کیا تھا۔ پروٹسٹنٹ ازم کا بانی لوتھر کفر کے غلبہ کے سلسلہ میں اصل مجرم ہے ۔ عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر اور تفسیر کا واحد ذریعہ قرار دے کر اور اجماع کی حجیت کو رد کر کے اس نے انکار وحی کی تحریکوں کے لیے زمین ہموار کی ۔ اس نے عیسائی تناظر میں وحی کے انکار کی عمومی قبولیت کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ وحی کے انکار سے مراد کیا ہے ؟ وحی کے انکار سے مراد یہ ہے کہ عقل استقرائی(Inductive Reason) اور عقل استخراجی (Deductive Reason)کو استعمال کر کے حقیقت (Ontology)تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ عقل وحی اور علم لدنی کے بغیر ان سوالات کا جواب دے سکتی ہے کہ انسان کیا ہے ؟ انسان کی کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ وغیرہ یہ Ontologicalسوالات ہیں ۔ عیسائیت یہ کہتی تھی کہ ان Ontologicalسوالات کا جواب وحی کے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے لیکن تحریک تنویر اس بات کی داعی ہے کہ ان سوالات کا شافی و کافی جواب عقل انسانی کے ذریعہ مل سکتا ہے اس کے لیے کسی ما ورائی ذریعہ علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس طریقہ سے عقل کو استعمال کرتے ہوئے ریاضی اور منطق کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اسی طریقہ سے عقل کو استعمال کر کے ما بعدالطبیعاتی حقائق اور حقیقت انسان و کائنات کے بارے میں مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔

بنیادی ذریعہ علم عقل ہے:

یہ تحریک تنویر کی علمیات (Epistemology) ہے ۔ اس علمیات کے مطابق اس قسم کے سوالات کہ تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئے ہو؟ تم کہا ں جائو گے ؟ تمہیں کیا کرنا ہے ؟ کائنات کی حیثیت کیا ہے ؟ تخلیق کے عمل کی حیثیت کیا ہے وغیرہ ۔ ان سب سوالات کے جوابات عقل استقرائی اور عقل استخراجی کی مدد سے دئیے جا سکتے ہیں۔

تحریک رومانویت کی علمیات:

تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت (Romanticism)یہ قرار دیتی ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ عقل استقرائی اور عقل استخراجی نہیں ہے بلکہ وجدان (Intution)ہے ۔Intuition لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”دیکھنا” ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت کے نزدیک حقیقت کو براہِ راست’ ‘دیکھا ” جا سکتا ہے اور اس براہِ راست دیکھنے کے ذرائع انسانی جبلتیں ، انسانی خواہشات اور احساسات ہیں ، یہی وجدان ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ عقل استقرائی اور عقل استخراجی انسانی جبلتوں ، خواہشات اور احساسات کی آلہئِ کار(Instrument) ہیں۔ تحریکِ رومانویت نے تحریکِ تنویر کے بر عکس انسانی جبلتوں ، خواہشات و احساسات کو بنیادی ذریعہ علم تصور کیا ہے۔

بنیادی ذریعہ علم وجدان ہے:

غرض تحریک رومانویت کے مطابق بنیادی ذریعہ علم Intuitionہے اور عقل خواہشات کی نوکر ہے (Reason is the Slave of Desire)جیساکہ بینتھم(Bentham) کہتا ہے (گو کہ وہ رومانوی نہیں تھا) کہ عقل تو دراصل خواہشات کی غلام ہے ، وہ تو در اصل Intuitionکی باندی ہے اور اصل میں حقیقت تک رسائی کا ذریعہ (Intuition) ہے ۔ خود انسان کے اند ر وہ جبلتیں ہیں جن کے ذریعہ وہ Ontological Realityتک پہنچ سکتا ہے ۔

روسو کے ذریعے تحریک تنویر اور تحریک رومانویت کا ادغام:

#سیاسی اور معاشرتی نقطہئِ نظر سے اس دوسرے فلسفہ کا سب سے زیادہ اثر ہوا ۔ جس شخص نے تحریکِ تنویر کو اور تحریکِ رومانویت کو باہم ملا دیا وہ رو سو تھا۔ روسو کے ہاں ایک بڑا بنیادی تصور ارادئہ ِ عمومی(General Will) کا ہے ۔ روسو کے خیال میں انسان بنیادی طور پر خیر ہے اور ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے ۔ انسانی خواہشات ، جبلتیں ، احساسات فطرتاً پاک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے۔

#انسان خود بخود ، بغیر کسی وحی کے ، بغیر کسی رہنمائی ، بغیر کسی نظام اطاعت کے ، بذات خود اس چیز کا مکلف ہے کہ وہ ارادئہ ِ عمومی کے ذریعہ خیر کا تمنائی ہو۔ ہر فرد کا ارادہ ، ارادئہ ِ عمومی کا اظہار اس لیے ہے کہ ہر فرد بنیادی طور پر خیر ہے ۔ یہی خیال ارادئہ ِ عمومی کا یہی تصور جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ “General Will always wills human welfare”

”ارادہ عمومی ہمیشہ انسانی فلاح کا ارادہ کرتا ہے ”

مقصد یہ ہے کہ انسان کا عمومی ارادہ خیر ہے ۔ وہ اس بات پر مجبور بھی ہے اور تمنائی بھی ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ایسی ہو جس سے سب لوگوں کی بھلائی اور فلاح ہو۔ ارادئہ ِ عمومی فی نفسہ خیر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فی نفسہ خیر ہے ۔

“The Self is essentially good”

”انسانی ذات فی نفسہ خیر ہے ”(ترجمہ)

انسانی Selfفی الواقع خیر کا ادراک کرتا ہے اور ارادہ بھی خیرکا کرتا ہے ۔ تحریک رومانویت کے نزدیک انسانی نفس بنیادی طور پر خیر کا منبع ہے ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خیر کے ادراک اور خیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے وحی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

انسان اور خدا میں کوئی فرق نہیں:

تحریک تنویر میں تو شروع ہی سے یہ تصور مو جود ہے کہ انسان اور خدا میں در اصل بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس خیال کو مختلف سطحو ں پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ سارتر کے افکار میں یہ بات واضح ہے۔ عموماً بیسویں صدی میں یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے لیکن شروع سے ہی یہ خیال کہ انسان علم و عمل ، معاشرت و سیاست کسی شعبہ میں بھی دوسرے کا محتاج نہیں ہے۔ آزادی (Freedom)اور خودمختاری(Autonomy)کے تصور کی یہی بنیاد ہے اور یہ دونوں تصورات تحریکِ تنویر اورتحریکِ رومانویت کی مشترکہ میراث ہیں ۔

#مغربی #تہذیب میں انسان کے قائم بالذات ہونے کا یہی تصور ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اسی لیے ہم مغربی تہذیب کو ایک مکمل اور بد ترین گمراہی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بقائے باہمی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مغرب کے پاس ایک تصور حق و خیر ہے اور ہمارے پاس ایک دوسرا تصور حق و خیر اور اس بنیاد پر اسلام اور مغرب میں کوئی مکالمہ ہو سکتا ہے ۔ مغرب سے کسی مکالمے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا تصورِ خیر اور تصورحق و خیر صریحاً باطل ہے۔

مغرب کا بنیادی عقیدہ الوہیت انسان:

مغرب کا بنیادی عقید ہ الوہیت انسان کا عقید ہ ہے ۔ مغرب کا بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے اور اگر بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے تو مغرب اور ہمارے درمیان مکالمہ ممکن ہی نہیں ۔ اس بنیادی فرق کے باعث ہمارے اور مغرب کے درمیان تو بعد المشرقین ہے ۔ ہم مغرب کو خالص جہالت تصور کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے مغربی تہذیب وحی کا انکار کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقت تک وحی الہٰی کے بغیر (عقل کی بنیاد پر، جبلتوں کی بنیاد پر ) رسائی ممکن ہے۔ یہ مغرب کا بنیادی عقیدہ ہے اور اسی عقیدہ کے سبب مغرب، مغرب ہے کسی اور وجہ سے نہیں ہے ۔

اوپر جو کچھ بیان کیا گیا اس کی تفصیل چند مغربی فلاسفہ کی فکر کے حوالے سے بیان کر نے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے کانٹ کے چند اساسی نظریات کے بارے میںعرض کروں گا۔

کانٹ کا مغربی فلسفے میں مقام:

کانٹ مغربی تہذیب میں بہت ہی بنیادی فلسفی ہے ۔ کانٹ کا مغربی فلسفہ میں جو مقام ہے افلاطون کے بعد شایدہی کسی اور مفکر کا ہو۔

#کانٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ Selfیا انسانی ذات کے اندر ہی ایسا نظام اور ترتیب(Order) موجود ہے جو انسانی تجربے کو ہیئت (Form)اور ساخت(Structure) فراہم کرتا ہے اور نتیجتاً انسانی تجربہ کو بحیثیت تجربہ کے ممکن بناتا ہے ۔ ذات یا Selfکے اس اندرونی نظام کے بغیر تجربہ ممکن نہیں ہوگا ۔ ہم محض مختلف قسم کے غیر مربوط احساسات کے مجموعہ کے مالک ہوں گے ۔ اسی طرح Selfکا یہ Orderکائنات کو اور اس میں مو جود مختلف اعمال و افعال ، اشیاء کو معانی فراہم کرتا ہے ۔ کائنات کے اپنے اندر کوئی معانی نہیں ہیں ، جب Selfکے Orderکو کائنات پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس کے اندر معانی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مختلف احساسات و معطیات باہم مربوط ہو کر تجربہ (Experience) کی شکل بھی اختیار کر تے ہیں۔ الغرض کانٹ کے نزدیک Self کے نظام (Order)کو اگر کائنات پر مسلط کیا جائے توکائنات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ اس کو سمجھنا چاہیے ۔ یعنی کائنات کو ایک معقول(Rational) کائنات کے طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو Selfکے نظام(Order)کے ذریعے سمجھا جائے ۔ تعقل ، معانی ، ربط و ضبط ، نظام، معیشت کا منبع و مصدر انسانی ذات(Self)ہے ، اس منبع نور کے باہر کائنات میں اندھیرا ہی اندھیر ا ہے ، بے ربطی ہے۔

The Self posesses an order which determines the structure of experience, gives forms & meaning to the world.

اشیاء کا مادی وجود لازمی ہے:

کانٹ کے مطابق Selfکو ایک ایسا علم حاصل ہے جو تجربہ سے ما ورا ہے۔(a prior Knowledge) ان معنوں میں ما وراء ہے کہ تجربہ کو تجربہ بننے کے لیے اس ما ورائی علم میں شرکت کرنا پڑتی ہے ورنہ تجربہ ، تجربہ نہ بن سکے گااور محض بے ربط احساسات اور معطیات کا ایک مجموعہ(Bundle) رہے گا۔ الغرض کانٹ کے مطابق Selfایک ایسا علم رکھتا ہے جس میں شے (Thing)کے تصورات (Categories)اور اشیاء کے مابین تعلق(Relative) کے متعلق تصورات پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً علت اور نتائج(Causation) کے تصورات اشیاء کے درمیان ربط و تعلق کے بارے میں وہ اطلاع دیتے ہیں (اوریہ اطلاع Selfکے پاس موجود ہے) جس کے ساتھ کائنات کی ہر چیز کو ہم آہنگ ہونا پڑے گا ورنہ وہ علم اور تجربہ نہیں بن سکتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات میں کسی بھی دو یا اس سے زیادہ اشیاء کے درمیان تعلق متصور ہوا ور وہ ان تصورات سے ما وراء ہو جو تصور Self میں پہلے سے مو جود ہیں ۔ اسی طرح کائنات میں کوئی چیزبھی ان تصورات سے ماوراء نہیں ہو سکتی جو Self میں پہلے سے موجود ہیں ۔ مثلاً ایک ایسا تصور مکان (Space)ہے ، ایساہی ایک تصور زمان (Time)ہے ، نیز ایسا ہی ایک تصور مقدار (Quantity)ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شے ہو اور وہ زمان اور مکان میں نہ ہو، یا اس کی کوئی مقدار نہ ہو ۔ یہ قطعاً ممکن نہیں ہے ورنہ وہ شے ہمارے احاطہ علم میں ہی نہیں آئے گی اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر قرار پائے گا۔

کانٹ اور عرفان ذات:

الغرض کانٹ نے ایک طرف تو یہ کہا کہ عقلیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ Self کے اندر وہ ترتیب اورنظم (Order)مو جود ہے جس کے نتیجے میں اشیاء اور اس کے باہمی ربط و تعلق کو متصور (Conceptualise)کرنے کے لیے ضروری تصورات کا Selfکو پہلے سے علم ہوتا ہے ۔ لیکن اگر یہ سوال اٹھایا جائے Selfخود کیا ہے تو اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ کانٹ کی علمیات میں عرفان ذات کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ Self جانتا ہے اور جاننے کا ذریعہ ہے لیکن Selfخود کیا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا ہمیں جس چیز پر ایمان لانا چاہیے اور اعتقاد رکھنا چاہیے وہ Selfکی یہ صلاحیت کہ وہ جان سکتا ہے ، علم (Knowledge) تک رسائی حاصل کر سکتا اور اپنے اندر ان تصورات اور اس ترتیب و نظم کوسموئے ہوئے ہے جو علم کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہیں ، اس سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔ یہی آزادی (Freedom) پر ایمان ہے ۔ فریڈم یا آزادی کیا ہے؟۔ آزادی Selfکی اس استطاعت (Capacity)کا نام ہے کہ وہ تما م تصورات کو جان سکے جن پر تجربہ اور علم کی بنیاد ہے ۔ لیکن Selfکی اس صلاحیت کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایمان اور عقیدے کی بات ہے۔ عقل استخراجی اور عقل استقرائی کسی میں بھی یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ Selfکی اس صلاحیت کو ثابت کر سکے۔ یہ تو ایمان کی بات ہے ۔ آپ کو اس پر ایمان لانا پڑے گا کہ Selfکے اندر یہ صلاحیت ہے کہ آپ اس کی بنیاد پر دنیا اور اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔

عقل کی بنیاد پر زباں و مکان سے ماوراء قوانین ایجاد کیے جاسکتے ہیں:

Selfکی اس صلاحیت پر ایمان لانے کے بعد ہم ایسے عمومی اصول وضع کر سکتے ہیں اور ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں ۔ ہم عقل استقرائی اور عقل استخراجی کو استعمال کر کے ایسے اصول وضع کر سکتے ہیں جو عمومی ہوں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ مثلاً کسی ایسے قانون کی ضرورت نہیں ہے جس کی دلیل کتاب اللہ سے نکلتی ہو یا انجیل سے نکلتی ہو وغیرہ۔ ہم خود اپنی اپنی عقل کی بنیاد پر ایسے قوانین ایجاد کر سکتے ہیں جو ہر معاشرہ اور ہر ریاست اور ہر نظام میں عمومی طور پر نافذ کیے جا سکتے ہوں اور جس کے نتیجہ میں ایک عادلانہ معاشرہ ، ایک عادلانہ ریاست اور ایک عادلانہ تنظیم ممکن ہو سکے چنانچہ ہمیں کسی کتاب اللہ کی ضرورت نہیں ہے ہمیں کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے، محض عقل کے استعمال کے ذریعہ ہم وہ قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں۔

مثالی معاشرے کا تصور:

اگر ہم ان آفاقی اصولو ں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا مثالی (Ideal)معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔جیسے کانٹKingdom of Endsکہتا ہے۔ Kingdom of Endsسے مراد وہ ریاست ہے جہاں ہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کیا جائے کہ وہ خود مختار (Autonomous)اور قائم بالذات (Self determined)ہے ۔ جہاں ہر شخص اس بات کا تعین کرے کہ وہ کس قسم کی زندگی گذارے گا ۔جہاں ہر شخص کو مقصودبالذات سمجھا جائے ۔ ہر شخص کو مساوی خود مختار ، مساوی طور پرقائم بالذات ہونا ، اور مساوی طور پر مقصود بالذات ہونا تسلیم کیا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص خیر و شر کا تعین خود کر سکتا ہے ۔ یہی کانٹ کا مثالی اور عادلانہ معاشرہ ہے ۔ یہی اس کے فکر میں جنت ارضی کا تصور ہے ۔ کانٹ نے اس جنت ارضی کا تصور براہ راست عیسائی جنت سماوی (Kingdom of Heaven)کی تر دید اور متبادل کے طور پر پیش کیا تھا۔

کانٹ کے افکار کے اجمالی جائزے سے ظاہر ہے کہ اس کے افکار جن پر پوری مغربی تہذیب کھڑی ہے اور مغربی فکر و فلسفہ کا انحصار اس پر ہے لیکن یہ تمام افکار مطلقاً طاغوت ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عیسائیت کے ساتھ کانٹ کا ایک نوعیت کا تعلق ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترتیب اور نظم (Order) Selfکے اندر خدا نے ہی رکھا ہے وغیرہ۔ کانٹ اس کا انکار نہیں کرتا۔ اس کی کچھ تو جیہات ہیں جس کی بنیاد پر کانٹ کو خاص طور پر پروٹیسٹنٹ عیسائی بنیادوں پر جواز مل سکتا ہے ۔ لیکن عملاً جس چیز کی وہ تعلیم دیتا ہے اور جو چیز عام ہوئی ہے وہ یہی خود ارادیت کی تعلیم ہے ۔ اس چیز کی تعلیم ہے کہ قانون بھی آپ خود بناسکتے ہیں اور ماورائے کائنات حقائق کا ادراک آپ خود کر سکتے ہیں۔ و ہ خود عیسائی رہا ہوگا لیکن جس چیز کی اس نے ترویج و اشاعت کی وہ تو خالص کفر تھا اور اسی کفر کی بنیاد پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہے ۔ آزادی کا یہ تصور ہی بعد میں سرمائے کی شکل اختیار کرتا ہے اور عالمی گمراہی کے طور پر مقبول ہوتا ہے۔

ہیگل کا تصور ذات …… اجتماعی:

دوسرا مفکر جو اہم ہے وہ #ہیگل ہے ۔ ھیگل اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا فلسفی ہے ۔ ھیگل کے تصورات بھی ان معنوں میں بہت اہم ہیں کہ ان کا یورپی فکر پر بہت اثر ہوا ہے ۔ ہیگل اور کانٹ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کانٹ کا تصورِ ذات(Self) انفرادی (Individual) ہے جبکہ ھیگل کا تصورِ ذات Self اجتماعی (Communitarian)ہے ۔ ھیگل کے نزدیک زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیت (Historical Language Community)کے تناظر اور سیاق و سباق میں انفرادی Self کی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس تناظر کے علی الرغم Selfکے کسی تصور کو متصور کرنا محض ایک خام خیالی اور abstractionہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل Selfجو قائم اور مو جود ہے وہ اجتماعیت پر مبنی Selfہے اور فرد کا کام اس Self میں شریک ہونا ہے ۔مثلاً جرمن قوم کا Selfاصل میں موجود ہے ، اور یہ Selfجرمن تاریخ، جرمن تہذیب اور جرمن تاریخی تجربہ (Historical Experience) میں اپنااظہار کرتا ہے۔

ہیگل کے یہاں Self کا تیسرا تصور: خدا تاریخ کے ذریعے تخلیق ہو رہا ہے:

لیکن ہیگل کے یہاں انفرادی اور اجتماعی Selfکے علاوہ Self کا ایک تیسرا تصور بھی ہے جسے وہ ذات مطلق (Absolute Self)کہتا ہے ۔ اسی ذات مطلق (Absolute Self)کو وہ روح کائنات (Geist)بھی کہتا ہے اور دوسرے نام بھی ہیںجن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہیگل نے ذات مطلق کا تصور مذاہب خاص طور پر عیسائیت سے لیا ہے اور اسی لیے بعض لوگ اسے عیسائی مفکر بھی سمجھتے ہیں لیکن ہیگل کے ذات مطلق اور عیسائیت کے تصور خدا میں ایک بہت بنیادی فرق ہے ۔ عیسائیت اور مذاہب کے نزدیک خدا ازل سے اپنی مکمل صورت میں مو جود ہے اور اس نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا ہے۔ خدا زمان و مکان سے ان معنوں میں بالا ہے کہ اس کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہے لیکن ھیگل یہ کہتا ہے کہ ذات مطلق کہیں بھی مکمل صورت میں مو جود نہیں ہے ۔ ذات مطلق محض ایک مجرد تصور ہے ۔ لیکن جب یہ ذات مطلق زمان و مکان میں داخل ہوتی ہے تو یہ مجر د تصور ایک عملی شکل (Actualization)حاصل کرتا ہے ۔ تاریخ اس ذات مطلق کی خود تخلیقیت(Self Creation) اور خود تشکیلیت (Self Constitution) کا سفر ہے ۔ جب خود تخلیقیت کے اس عمل کے ذریعہ ذات مطلق اپنے آپ کو مکمل کرے گی تو تاریخ ختم ہو جائے گی۔ اسی کو ھیگل اختتام تاریخ(End of History) کہتاہے ۔ اگر مذہبی زبان میں اس بات کو بیان کریں تو ھیگل کے نزدیک (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) خدا تاریخ کے ذریعے اپنے آپ کو خلق کر رہا ہے ، اپنے آپ کو مکمل کر رہا ہے ۔

ہیگل نپولین کو خدا کا اظہار سمجھتا تھا:

اب ھیگل کے نزدیک ذات مطلق خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے اس سفر کو زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیتوں اور ان تاریخی اجتماعیتوں کے جلو میں ظہور پذیر ہونے والی نابغۂ روزگار شخصیات کے ذریعہ کرتی ہے۔ مثلاً جرمن قوم کی تاریخ ، تہذیب ، ادارے ذات مطلق کی تکمیل سفر کے مختلف لمحات ہیں ۔ اسی طرح مثلاً نپولین کو ھیگل فی الواقع خدا کا اظہار سمجھتا تھا۔ اور ١٨٠٦ء میں جب نپولین نے جرمنی پرحملہ کیا تو ھیگل نے با وجود اس کے کہ وہ جرمن تھا اس کا خیر مقدم کیا خدائی تعظیم کے ساتھ کیا اور اپنی کتاب Phenomenolgy of Selfاس کے نام معنون کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ھیگل کے نزدیک نپولین ذات مطلق کا اظہار تھا۔ تو انفرادی Selfاور اجتماعی Selfدونوں ذات مطلق کی خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے عملی آلہئِ کار(Vehicale) ہیں ۔ اسی کو ھیگل عقل کی مکاری[Cunning of Reason] اور تاریخ کی مکاری [Cunning of History] کہتا ہے ۔

تاریخ خیر و شرکا اصل پیمانہ ہے:

ان دونوں اعمال [Processes]یعنی[Cunning of Reason]اور [Cunning of History]کے ذریعہ تاریخی اجتماعیتیں حق کے اظہار پر مجبور ہیں۔ چنانچہ تاریخی اجتماعیتوں کی تاریخ ، طرز حیا ت ہی خیر و شر ، اخلاقیات کے واحد پیمانے ہیں۔ اخلاقیات وہ نہیں ہے جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہے بلکہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقائ(Development) کے لیے جو معیارات خیر و شر مقرر کیے ہیں، انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں قرآن اور انجیل اخلاقیات کے پیمانے فراہم کرتے ہوں کیونکہ وہ اس زمانے کی تاریخی اجتماعیتوں کی اخلاقیات کے اظہارتھے لیکن اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور اجتماعیتوں نے اخلاقیات کے اظہار کے جو نئے زینے عبو ر کیے ہیں انہوں نے قرآن اور انجیل کو ازکارِ رفتہ شے بنا کر رکھ دیا ہے ۔

تاریخ میں اخلاقی پیمانے بدلتے رہتے ہیں:

اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں تغیرات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی پیمانے ، خیر و شر کے معیارات بدلتے رہتے ہیں اور ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ہر آنے والے دور میں ذات مطلق اپنی تخلیق اور تکمیل کے اگلے اوربر تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے ۔ اسی کا نام ترقی(Progress) اور Developmentہے ۔

خیر و شر کا پیمانہ ترقی ہے:

اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ھیگل کے نزدیک خیر و شر کا جو پیمانہ ہے وہ ترقی (Development) ہی ہے اور جو تاریخی اجتماعیت جتنی زیادہ ترقی کر گئی وہ اسی قدر معیار حق و باطل اور معیار خیر و شر ہوگی اور چونکہ سب سے زیادہ ترقی جس اجتماعیت (Community)نے کی ہے ،اور سب سے زیادہ غلبہ جس نے حاصل کیا ہے وہ مغرب ہے اس لیے مغرب اور اس کی تاریخ اور تہذیب ، ادارتی صف بندی ، آدرشیں ہی حق و باطل کا معیار ہیں ۔ اور چونکہ مغرب کی ترقی کے آگے کسی ترقی کا تصور نہیں ہو سکتا اس لیے مغربی تہذیب ہی بنیاد ی طور پر ذات مطلق اور روح کائنات کا اظہار مکمل ہے۔ اسی لیے مغربی تہذیب کا غلبہ تکمیل ذات مطلق ہے اور اسی لیے اب دائمی ہے اور اس دوام کو کبھی زوال نہیں آئے گا اس لیے ہر تہذیب اور ملت کو مغرب کی تہذیب ، آدرشوں ، اداروں کوخیر مطلق کی حیثیت سے قبول کر لینا چاہیے ۔ ان معنوں میں تاریخ اب ختم ہوگئی ہے۔

ہیگل امریکا کا سب سے بڑا مداح :

اوراسی لیے سب سے زیادہ توقع اور امید اور سب سے زیادہ مدح سرائی ھیگل کے ہاں امریکہ کی ہے ۔ وہ کہتا ہے اصل میں امریکہ مغربی تہذیب کی روح کا خالص ترین اظہار ہے ۔ حالا نکہ ھیگل کے دور میں امریکہ کی کوئی خاص سیاسی حیثیت نہیں تھی جو آج ہے اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کے آدرشوں اور افکار کے سب سے زیادہ اظہار اور سب سے زیادہ ترقی کا امکان امریکہ میں ہے۔

تاریخ کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟

الغرض مغربی تہذیب کا غلبہ دائمی ہے۔ جب مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے تو وہ ان معنوں میں کہ اس کے بعد کسی بنیادی تغیر کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ اس کے بعد حق کے مزید کسی ادراک کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ فی الواقع تحریکِ تنویر نے جو تصورات پیش کیے ہیں بالخصوص آزادی کا تصور، وہ قدر مطلق ہے اور اس قدر مطلق کو آفاقی طور پر مستحکم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ مغربی تہذیب کی عالمگیریت اور آفاقیت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا جائے بلکہ اس کو ممکن بھی بنایا جائے اور اس کی راہ میں حائل ہر خطریکو ہر قیمت پر ختم کر دیا جائے۔

مغرب ایک دنیا تعمیر کررہاہے، یہ دنیا ناقابل تغیر اور ناقابل تردید ہے۔ تاریخ کا اختتام ان معنوں میں ہوچکا ہے کہ مغربی تہذیب نے جن آدرشوں کو پیش کیا ہے انہیں نہ صرف یہ کہ آفاقی حق کے طور پر قبول کرے گی بلکہ اس کے اظہار کا موقع بھی دے گی مغربی تہذیب کا غلبہ ایک نا گزیر حقیقت ہے ۔ تحریک تنویر اورتحریک رومانویت نے جن آفاقی نظریات کو پیش کیا تھا ان کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں ہے ۔

جنھوں نے ھیگل کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ھیگل کی رومانوی اور تنویری تعبیریں یکساں طور پر ممکن ہیں ۔ او ر روسو کی طرح ھیگل بھی تہذیب مغرب کے ان دو دھاروں کے ملاپ کا کام کرتا ہے۔

مغرب میں ”خیر” نہیں ”ارادہ” غالب ہے:

اوپر ہم نے کانٹ اور ھیگل کا جو تصو ر پیش کیا ہے وہ یہ تصور تھا کہ مغربی تہذیب اور اقدار کا غلبہ انسانیت کی فلاح اور خیر کی چیز ہے ۔ لیکن تحریک رومانویت سے ایک اور دوسرا دھارا بھی نکلتا ہے جو مغرب تہذیب کو فلاح و خیر وغیرہ نہیں گردانتا۔ مثلاً شوپنہار کے ہاں تو بالخصوص یہ بنیاد مو جود ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے غلبہ کو فی الواقع خیر نہیں تصور کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ جو چیز غالب (Dominant) ہوئی ہے وہ ارادہ (Will)ہے ۔ جس چیز نے مغرب کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا ہے وہ عقل نہیں ہے بلکہ Will ہے اور ارادہ ایک اندھی قوت (Blind Force)کا نام ہے ۔ اس اندھی قوت نے دنیا کو غم اور دکھ سے بھر دیا ہے ۔ اس قوت اور اس کے غلبہ کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا ہے۔ یہ قنوطیت کا غلبہ مغربی فلسفیوں میں شروع سے چلا آرہا ہے حتیٰ کہ فو کالٹ (Foucault) میں بھی جو بیسویں صدی کا مفکر ہے اور ١٩٨٤ء میں مرا ہے۔ اس کے افکار پر بھی یاسیت و قنوطیت شدت کے ساتھ غالب ہے۔

مغربی تہذیب میں یہ دونوں دھارے مو جود ہیں ۔ ایک طرف تو پر امید (Optimistic) تصور ہے کہ مغربی تہذیب کا غلبہ خیر و فلاح ہے دوسری طرف قنوطی تصور ہے جو اس کو خیر و فلاح نہیں سمجھتا ہے لیکن مغربی غلبہ کی نا گزیریت پر دونوں یک زبان ہیں۔

اسی دوسرے دھا رے کا اظہار ایک اورفلسفی کرتا ہے جس کا نام ہے کر کیگارڈ (Kierkegard) ہے۔ اس کے ہاں یہ خیال مو جود ہے کہ انسان جو کچھ پسند کرتا ہے اس کو ہم عقلی بنیادوں پر جواز(Justify) فراہم نہیں کر سکتے ۔ آپ کوئی عقیدہ اختیار کر تے ہیں ، کوئی طرز زندگی پسند کرتے ہیں ، اس کا انتخاب کو آپ نہ عقل کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں کسی چیز کے حق اور نا حق ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ آپ کیا چنتے ہیں بلکہ وہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے کیسے چنتے ہیں۔ کسی چیز کی اپنی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے ، جس اندازمیں آپ اس چیز کو اپناتے ہیں وہ اس میں قدر پیدا کرتی ہے یا اس کو بے قدر بناتی ہے ۔ انگریزی میں ہم اس کو یوں ادا کر سکتے ہیں کہ

It is not important what you choose, but how you chose it.

”یہ اہم نہیں ہے کہ تم کیا چنتے ہو بلکہ اہم یہ ہے کہ تم کیسے چنتے ہو ”

یہ اہم نہیں ہے کہ تم ہندو ہو یا مسلما ن ہو یا لبرل ہو ، کیونکہ یہ تمام طرز ہائے زندگی اور عقائد یکساں طور پر بے قدر (Value less)ہیں ۔ بلکہ جس شدت کے ساتھ آپ کسی طرز زندگی کے ساتھ وابستہ ہوں گے بغیر کسی دلیل کے اسی قدر اس طرز ِزندگی کی قدر ہوگی شدتِ وابستگی کسی چیز میں قدر پیدا کرتی ہے ۔ اس کو انگریزی میں کہیں گے ۔

Choosing passion determines your access to the good.

اور اس کی معراج یہ ہے کہ جو عقیدہ اور طرزِ زندگی سب سے زیادہ لا یعنی ، مہمل اورعقلی طور پر تضادات کا مجموعہ ہو گا اس کو اگر اس تمام لایعنیت ، اور تضادات عقلی کے با وجود شدت جذبات کے ساتھ یک سو کر قبول کیا جائے تو یہ ایک ایسی زندگی کا اظہار ہوگا جو کہ قدر ِاعلیٰ کی اعلیٰ ترین منزل ہے ۔ کر کیگارڈ کا یہ خیال بیسویں صدی میں نہایت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ آج مغربی تہذیب کی لا یعینت مغربی مفکرین پر اظہرمن الشمس ہے ۔ لیکن اس لا یعنیت کو اسی شدت کے ساتھ گلے لگائے رکھنے کو Authenticityکی معراج سمجھا جا رہا ہے ۔

مارکس کے افکار:

#مارکس کو ہم کسی نہ کسی حد تک اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مارکس پسند و نا پسند اور اختیار کی اس لا یعنیت کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شوپنہاداور کرکیگارڈ کے یہاں پسند و اختیار کی لا یعنیت کا جو خیال مو جو د ہے وہ در اصل ایک خاص معاشی نظام کی بالا دستی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ اگر اس نظام یعنی سرمایہ داری کو کسی نہ کسی صورت سے آپ ختم کر دیں تو اس کے نتیجہ میں لا یعنیت یا جسے وہ اجنبیت (Alienation)کا نام دیتا ہے ختم ہو جائے گی۔

آپ جو چاہیں کریں:

مارکس کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں لیکن اس تفصیل میں یہاں نہیں جائوں گا صرف اہم اہم اور موٹی مو ٹی باتیں عرض کروں گا۔ مارکس کا بنیادی خیال یہ ہے کہ اختیار و پسند کی لا یعنیت سرمایہ داری کا شاخسانہ ہے۔ سرمایہ داری نے پسندو اختیار کو حقیقی (authentic)رہنے ہی نہیں دیا۔

حقیقی واقعی(authentic) اختیار(Choice)کا مطلب یہ ہے کہ انسان غلام (Slave)نہ رہے بلکہ آقا(Master)بن جائے ۔ آقائی اور خود مختاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ طبقاتی جد و جہد کے ذریعہ پر ولتاریوں کی آمریت قائم کریں تاکہ سرمایہ داری نظام سے اوپر اٹھ کر وہ جنت ارضی حاصل کی جا سکے جسے مارکس کمیونزم کہتا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ جنت ارضی قائم ہو جائے گی اور آپ خود مختار اور آقا بن گئے تو کیا آپ کو اختیار کی لا یعنیت سے رستگاری نصیب ہو گی یا نہیں؟ اب اگر مارکس نے جو کمیونسٹ معاشرے کے خدو خال بیان کیے ہیں ان کا جائزہ لیںآپ دیکھیں گے کہ یہاں بھی اختیار کی لا یعنیت عود کر آتی ہے ۔ کمیونسٹ سو سائٹی وہ ہے جس میں کسی بھی چیز کی حقیقی قدر نہیں ہے ۔ جس کا جو جی میں آئے کرے۔ یہی مارکس کا تصور ہے کمیونسٹ سوسائٹی کا۔ جب ہرچیز کی قدر برابر ہے (یعنی کہ کوئی قدر نہیں ہے ) اور آپ جو چاہیں کریں تو اختیار کی لا یعنیت کا عود کر آنا ایک یقینی بات ہے ۔ اس لحاظ سے کانٹ کی Kingdom of Endsاور کمیونسٹ سو سائٹی میں بڑی مماثلت ہے کہ دونوں میں اختیار کی لا یعنیت (absurdity of Choice)اور اختیار کی آفاقیت(Universality of Choice) عود کر آتے ہیں ۔ اختیار کی آفاقیت اور اختیار کی لا یعنیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ جب آپ اس کے لیے تگ و دو کرتے ہیں کہ آپ جو چاہیں کریں (اختیار کی وسعت) تو کسی چیز میں بھی کوئی حقیقی قدر(Intrinsic Value) باقی نہیں رہتی اور زندگی فی الواقع ایک تماشہ بن جاتی ہے ۔

مارکسی معاشرے میں مقصد زندگی کا تصور کیا ہے؟

اس کی واضح تصویر مارکس کے کمیونسٹ معاشرے کے تصور میں ہمیں ملتی ہے ۔ کمیونسٹ معاشرے میں مارکس کہتا ہے آپ کی جو مرضی میں آئے گا وہ آپ کر سکیں گے ۔ صبح کو مچھلی پکڑیں ، شام کو گانا گائیں وغیرہ ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اختیار کی لا یعنیت کو ان معنوں میں رد نہیں کرتا اور اسے ایک اچھی چیز کے طور پر قبول کرتا ہے ۔ کہتا ہے کہ انسان کی آزادی ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس کی نظر میں زندگی ایک کھیل ہے ۔ جس میں جو دل چاہے آپ کھیلیں اور فی الواقع قدر(Value) کچھ نہیں ہے اور قدر صرف وہ ہے جو آپ چاہیں کہ قدر ہو۔ یہ تصور بعد میں دوسروں کے یہا ں ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عملاً سرمایہ داری اور اشتراکیت جو معاشرہ پیدا کرتے ہیں بالکل ایک جیسے معاشرے ہوتے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم ہونا ان کے لیے ممکن ہے۔ اشتراکی ریاست ،سرمایہ دارانہ ریاست ہوجاتی ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست اشتراکی ہو سکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر ان کے یہاں کوئی خیر کا تصور مو جود ہی نہیں ہے ۔

مابعدالطبیعاتی سوالات کے انکار کا مکتبہ فکر:

اب چند باتیںPositivistsکے بارے میں ۔ Posiitivistsایک ایسا مکتبہ ئِ فکر ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں ظہور پذیر ہوا اوراس نے سرے سے حقیقت (Ontological) سے متعلق سوالوں کی ضرورت ہی سے انکار کر دیا اس نے کہا یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرنا کہ کائنات کیا ہے اور انسان کیاہے اورحقیقت کیا ہے یہ لا حاصل بات ہے ان حقائق تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اس مکتبہ فکر میں واحد استثناء ہے (یہ بعد میں عرض کروں گا کہ Wiltgenstein نے ایسا نہیں کہا کہ حقائق کے حصول کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ) سب سے اعلیٰ مقام Positivistsمیں Wittgenistein کا ہی ہے۔

Positivists کے مطابق Ontologicalحقائق کے ادراک کی کو شش کرنا فعل عبث ہے اور ہمیں اس سے باز آ جانا چاہیے مثلاً یہ جو Ontologicalحقائق کی بات لوگ کرتے ہیں کہ انسان کیا ہے اور کائنات کیا ہے اور خیر کیا اور حق کیا ہے تمام چیزیں یہ سب کچھ نفسیات کاری ہے ۔ یعنی انسان اپنے نفس کے اندر چند جبلتیں رکھتا ہے جن کی بنیاد پر وہ فی نفسہ کچھ باتیں کہتا ہے لیکن ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے اور علمی حیثیت صرف ان چیز وں کی ہے جن پر ہم منطقی ذرائع سے پہنچتے ہیں یا جو تجربات کے ضمن میں ہم جانتے ہیں۔ماورائی حقائق(Ontological Truth) تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکتے ۔ اس چیز کے انکار کی ایک شکلPhenomnology ہے اور دوسری شکل Hermanuticsکی ہے( Hermanuticsپہلے اور Phenomnologyبعد میں ) ۔ اس میں ایک رد عمل پیدا ہوا کہ نہیں یہ ممکن ہے کہ —فرض کریں ہم یہ با ت تسلیم کر بھی لیں کہ ماورائی حقائق کی دسترس ہمیں اپنے نفس سے حاصل ہوتی ہے تو ہم ایسی سائنس ایجاد کرسکتے ہیں کہ جس وقت ہم انسانی تجربات کی منظم اندا ز میں[System atically] توجیہہ[Interpret] کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ تو ہم ان تجربات کے اصلی معانی بیان کر سکیں گے۔ اس سائنس کو ہم کہتے ہیں [Hermanutics]اور Habermas کے ہاں یہ تصور مو جود ہے کہ جو کچھ بھی انسانی تصورات ہیں ان کا سائنسی اور منظم اور مرتب تجزیہ حقائق کے ادراک کا ایک صحیح ذریعہ ہو سکتا ہے ۔ اس میں کچھ مفکرین نے بالخصوص Diltheyنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ تجربے

سوشل ڈیمو کریسی کیا ہے؟



سوشل ڈیمو کریسی کیا ہے؟ 
#سوشل #ڈیموکریسی کی تاریخ:

سوشل ڈیمو کریسی ( Social #Democracy# ) #لبرلازم اور #سوشلزم کا ایک ملغوبہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا ایک مقبول عام نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے بانی انیسویں صدی کے فرانسیسی فلسفی تھے بالخصوص Proudhon اور Fourier۔ فرانس کے بادشاہ Louis Napoleon iii, نے اس نظریہ کی بنیاد پر بہت سی ریاستی پالیسیاں بھی انیسویں صدی میں وضع اور نافذ کیں۔

انیسویں صدی کے آخری چوتھائی حصہ میں یہ نظریہ جرمنی میں بھی عام ہوا اور Marx کی زندگی میں ہی اس کی بنائی ہوئی تنظیم First Communist International میں ایک مضبوط سوشل ڈیمو کریٹ دھڑا اُبھر کر سامنے آیا جس نے بالآخر اس تنظیم پر قبضہ کرلیا۔ جرمنی کی کیمونسٹ پارٹی اس زمانہ میں دنیا کی سب سے بڑی کیمونسٹ جماعت تھی۔ اس پارٹی پر بھی Social Democrat قابض ہوگئے۔ ان کی قیادت Eduara Bernstein اور Karl Kautsky کررہے تھے۔ روس کی کیمونسٹ جماعت بھی بیسویں صدی کی ابتدا میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور سوشل ڈیمو کریٹ Martow کی قیادت میں اس جماعت کے Memshevik ڈھڑے پر قابض ہوگئے لینن ان کاشدیدترین مخالف تھا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسیوں صدی کے اوائل میں برطانیہ، اٹلی، اسپین اور اسکنڈے نیویں (Scandinavian) ممالک میں طاقت ور سوشل ڈیمو کریٹ جماعتیں قائم ہوئیں پہلی جنگ عظیم کے دور میں تقریباً تمام یورپی ممالک میں سوشل ڈیمو کریٹ جماعتوں نے اپنے ملک کی قوم پرست حکومتوں کا ساتھ دیا اور ١٩١٩ئ- ١٩٤٥ء کے دور میں یہ حکومتوں میں شریک رہیں۔ جرمنی کی نازی (Nazi) میںبھی سوشل ڈیمو کریٹ پالیسیاں اپناتی تھی اور Hitler اورMussolini خود کو National Socialist سمجھتے تھے۔

١٩٤٥ء سے ١٩٧٩ء تک پورے مغربی یورپ اور امریکا میں سوشل ڈیمو کریسی غالب حکومتی نظریہ کے طور پر اپنائی گئی۔ اس دور میں جس نظریہ نے سوشل ڈیموکریٹک پالیسیوں کی توجیہ پیش کی وہ Keynesianism ہے اور Kenynesian پالیسیوں کو ریاستی سطح پر سب سے پہلے امریکی صدرFranklin Roosevelt نے اپنایا۔ ١٩٤٥ء سے ١٩٧٩ء کے دور میں کئی یورپی ممالک میں اور امریکا میں بھی سوشل ڈیموکریٹک حکومتیں قائم ہوئیں۔ یہ دور سرمایہ داری کا زریں دور (Golden age) کہلاتا ہے۔

١٩٧٩ء سے ٢٠٠٧ء تک سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں بتدریج ریاستی سطح پر رد کی گئیںاور امریکا اور کئی یورپی ممالک میں لبرل پالیسیوں کا احیا ہوا۔ ٢٠٠٧ء کے بعد سے یورپ اور امریکا مالیاتی اور ریاستی قرضہ جات کے بحرانوں کا شکارر ہے۔ جس کے نتیجہ میں لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ پالیسیوں کی ایک مخلوط تشریح جزوی طور پرظا ہرہورہی ہے۔ معیشت میں ریاستی مداخلت کی نظم ِنوکو ممکن بنانے کی ایسی کوشش ہورہی ہے جو سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

سوشل ڈیموکریٹک نظریات ایشیا افریقا اور جنوبی امریکا میں بھی ١٩٤٥ء کے بعد بہت مقبول ہوئے۔ یہاںکی قوم پرست حکومتیں… ہندوستان، مصر، انڈونیشیا، ارجنٹینا، ترکی، برازیل وغیرہ۔ عموماً سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار کرتی رہیں ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم سوشل ڈیموکریٹک جماعت پیپلزپارٹی ہے،گوکہ سوشل ڈیموکریٹک پالیسیاں ایوب خان، مشرف، نواز شریف وغیرہ نے بھی اختیار کی ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی سوشل ڈیموکریٹک نظریات سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مفکرین، پروفیسر خورشید احمد، نجات اللہ صدیقی، عمر چھاپرا نے سوشل ڈیموکریسی کی اسلام کا ری کی۔ اسلامک اکنامکس (Islamic Economics) کا مضمون وضع کر کے کی ہے جو آج بیشتر پاکستانی جامعات میں شامل نصاب ہے۔

یورپی #کیمونسٹ پارٹیاں بھی سوشل ڈیموکریٹک نظریات سے بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ یہ عمل ١٩٧٠ء کی دہائی کے وسط سے شروع ہوا جب فرانس اور اٹلی کی کیمونسٹ پارٹیوں نے Eurocommunism کا نظریہ اختیار کیا (اس نظریہ کی اساسی بنیاد Antonio Gramsci ١٩٢٠ء کی دہائی میں وضع کرچکا تھا)۔ ١٩٨٥ء کے بعد سوویت روس کے حکمراں گوربا چوف (Gorbachev) نے سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار کیں۔ اب یورپ میں کیمونسٹجماعتیں تاحال معدوم ہوگئی ہیں۔ وہ اکیلا کمیونسٹ ملک جس نے سوشل ڈیموکریٹ پالیسیاں اختیار نہیں کیں وہ چین ہے اور چین کے ریاستی نظام کے استحکام کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔

سوشل #ڈیموکریٹک انفرادیت:

سوشل #ڈیموکریسی ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے، لہٰذا اس کے کلیدی تصورات اس تنویری فکر (Enlightenment) سے نکلتے ہیں جس سے لبرل قوم پرست اور سوشلسٹ کلیدی تصورات برآمد ہوتے ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی کا کلمہ بھی ”لاالٰہ الاالانسان ہے” ۔ سوشل ڈیموکریسی کا مقصد لامتناہی فروغ آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ لبرل ازم اور سوشلزم کی طرح سوشل ڈیموکریسی بھی اصلاً اور اصولاً ایک مادہ پرست (Materialist) نظریہ ہے اور اس کا مقصد بھی انسان کی خواہشات کو تمام کائنات پر مسلط کرنا اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ تمتع فی الارض کو ممکن بنانا ہے۔ سوشلسٹ، قوم پرست، لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ سب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کے اندر خود تخلیقیت اور تخلیقیت کائنات ( Self and Reality Creation ) کی صلاحیت موجودہے اور عقل (Pure Reason) کا یہ تقاضا ہے کہ وہ حق کو اپنی خواہش کے مطابق تخلیق کرے۔ لہٰذا قوم پرست لبرل، سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ سب ذلیل ترین کافر ہیں۔ کیوں کہ یہ تو شرک سے بھی آگے کی ایک منزل ہے اور خدائی کا دعویٰ تو ابلیس نے بھی نہیں کیا اور اسی چیز کو مولانا مودودی نے ”جاہلیت خالصہ” بتایا ہے (دیکھئے اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی)

لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ تصور انفرادیت میں فرق بھی ہے۔ لبرل مفکرین فرد کو خود غرض اور قائم باالذت تصور کرتے ہیں۔ لبرل نظریہ کے مطابق ہر فرد اپنی انفرادی آزادی / سرمایہ کی بڑھوتری کے لیے مستقل جدوجہد کرتا ہے۔ وہ دوسرے افراد کو اپنے حصولِ سرمایہ / آزادی کا ذریعہ تصور کرتا ہے اور خود بھی دوسروں کی جدوجہد بڑھوتری سرمایہ/ آزادی میں آلہ کار بننے پر راضی ہوتا ہے۔ اس ہی بنیاد پر لبرل معاہدات (Contract ) وضع کیے جاتے ہیں۔

سوشل ڈیموکریٹ فرد کو خود کفیل (Autonomous) تصور نہیں کرتا بلکہ انسانیت کو بحیثیت نوع خود کفیل اور قائم باالذت تصور کرتا ہے۔ سوشلزم کی طرح سوشل ڈیموکریٹ بھی خودتخلیقیت کے عمل کا اظہار پیداوار (Production) میں دیکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات کی تخلیق خام مادہ (Raw Materials) میں اپنی محنت (Labour) کو ملاکر کرتا ہے اور Production کا عمل ہی اظہار تخلیق ذات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں انسانیت دو عظیم طبقوں (Classes) میںتقسیم ہوجاتی ہے۔ مزدوروں کا طبقہ جو صرف اپنی محنت (Labour) کا مالک ہوتا ہے اور سرمایہ داروں کا طبقہ جو تمام ذرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے۔ سوشلسٹ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں لیکن سوشلسٹوں کی رائے میں مزدوروں اور سرمایہ داروں میں نزاع (Conflict) کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے ریاستی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ داروں کے طبقہ کو ختم کردے اور Dictatorship of the Proletariat کے ذریعہ سرمایہ دارانہ ریاستی ملکیت قائم کردے۔

سوشل ڈیموکریٹ اس انقلاب کی ضرورت کے قائل نہیں۔ ان کی رائے میں جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام زندگی ترقی کرتا ہے۔ طبقاتی کشمکش کمزور ہوتی جاتی ہے۔ اور ہر شخص سرمایہ کا آلہ کار (یعنی مزدور) بن جاتا ہے۔ نجی سرمایہ دارانہ ملکیت کارپوریٹ (Corporate) سرمایہ دارانہ ملکیت میں تحلیل ہوجاتی ہے اور یہ تبدیلی سرمایہ دارانہ علمیت (Capitalist Epistimology) کے بتدریج غلبہ کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔

سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ تصور انفرادیت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سوشلسٹ انفرادیت کو غضب اور حسد سے مغلوب تصور کرتے ہیں۔ سوشلسٹ نظریہ کے مطابق مزدور طبقہ کا ہر فرد سرمایہ دار طبقہ سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ یہ نفرت اس کی ہوس اور شہوت پر غالب آتی ہے اور فرد اور طبقہ کا عمل نفرت ،حسد اور غضب کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سوشلسٹ اور قوم پرستانہ اقداری مماثلت یہ ہے کہ دونوں نظریات فردکو نفرت اور حسد کے جذبات سے مغلوب تصور کرتے ہیں اور ایک سوشلسٹ اور قوم پرست فرد حسد اور نفرت ہی کی بنیاد پر بڑی سے بڑی قربانی دینے پر تیار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس سوشل ڈیموکریٹ انفرادیت کو حرص اور طمع سے مغلوب تصور کرتے ہیں حسد اور نفرت سے نہیں۔ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل تصورِ انسانیت میں بہت مماثلت ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ نظریہ کے مطابق ہر فرد خواہ وہ مزدور ہو خواہ سرمایہ کار، بڑھوتری سرمایہ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی ابدی خواہش رکھتا ہے۔ لہٰذا وہ سرمایہ دارانہ عقلیت (Enlightenment Rationality) پر ایمان لے آتا ہے۔ یہ عقلیت خواہشات نفسانی کے حصول کے سہل ترین طریقہ کی نشان دہی کرتی ہے اور اس کی مفروضات دورس آفاقی (Universal) اور معروضی (Objective) ہیں اور ان پر عمل کرنے سے سب کا بھلا ہوتا ہے۔ سب کی خواہشات نفسانی فروغ پاتی ہیں۔ خواہ وہ مزدور ہو خواہ سرمایہ کار… ہوس سے مغلوب عقلیت مزدوروں اور سرمایہ کاروں میں اشتراک عمل کا وہ طریقہ بتاتی ہے جس سے سرمایہ کی بڑھوتری برائے بڑھوتری تیزسے تیز تر کی جاسکے اور سب کی خواہشات نفسانی خوب سے خوب تر فروغ پائیں۔ لہٰذا سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ دارانہ طبقہ کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ سرمایہ داروں اور مزدوروں میں ایسے اشتراک عمل کے ممکنات کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عدل فروغ پائے۔

سوشل ڈیموکریٹک تصورِ معاشرت:

سرمایہ دارانہ عدل سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد اپنی تمام خواہشات نفسانی کے حصول کا ہنوذ مکلف ہوتا چلا جائے لبرل کہتے ہیں کہ اس عدل کے حصول کے لیے بنیادی انسانی حقوق (Human Rights) کی فراہمی کافی ہے۔ یہ ہیومن رائٹس، تحفظ سرمایہ دارانہ حیات )غیر سرمایہ دارانہ حیات کا تحفظ مقصود نہیں، مثلاً مشہور لبرل فلسفی جان لاک نے امریکا کے قدیم باشندوں (ریڈانڈینز) کے قتل عام کو بالکل درست قرار دیا(۔تحفظ سرمایہ دارانہ آرا )جان لاک نے کی اپنی مشہور دستاویز A Letter on Toleration میں مسلمانوں کو اشاعتِ آرا کے حق سے محروم کرنے کا جواز پیش کیا ہے ( ,اور تحفظ سرمایہ دارانہ ملکیت… سوشل ڈیموکریٹ کہتے ہیں، سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ اور حصول کے لیے یہ کافی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ (Market) کا عمل لازماً اجارہ داری (Monopolisation) کا شکار ہوجاتا ہے اور قیمتوں کا تعین مسابقتی عمل کے ذریعہ نہیںہوتا اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے قیام کے وقت جو تقسیم قوت میں عدمِ توازن ہوتا ہے اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ سرمایہ دارانہ عمل کے ذریعہ ارتکاز دولت اور قوت لازماً فروغ پاتا ہے۔

تقسیم قوت کی سب سے بڑی ناہمواری، مزدوروںاور سرمایہ کاروں کے درمیان ہوتی ہے۔ انیسویں صدی میں یہ ناہمواری بہت شدید شکل میں سامنے آئی اور سرمایہ کارانہ ترقی کے نتیجہ میں مزدوروں کے مفادات میں اضافہ کی رفتار بہت سست رہی۔ اس دور کےSocial Democrats نے اس عدم توازن کی وجہ یہ بتائی کہ مزدور کی مسابقتی قوت سرمایہ کار کے مقابلہ میں نہایت محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سرمایہ کار جتنی کم اُجرت بھی دے مزدور اس کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ سرمایہ کار جب چاہے مزدور کی ملازمت ختم کردے اور جتنی شدید مشقت مزدور سے چاہے لے ۔ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام ان حالات میں ناممکن ہے۔ گو کہ مزدوروں کو فرداً فرداً تمام ہیومن رائٹس (human Rights) میسر تھے۔

سوشل ڈیموکریٹک مفکرین کے مطابق سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے ٹریڈ یونین (Trade Unions) کا قیام ضروری ہے۔ ٹریڈ یونین وہ ادارہ ہے جس میں مزدوروں کی قوت مجتمع کی جاتی ہے اور وہ سرمایہ دارانہ عدل کے لیے جستجو اجتماعی سودے بازی (Collective Bargaining) کے ذریعہ کرتی ہے۔ اس اجتماعی سودہ بازی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری میں مزدوروں کے جائز حق کا حصول ہوتا ہے۔ Collective Bargaining کے ذریعہ مزدور اجتماعی سرمایہ کار بن جاتا ہے۔ وہ سرمایہ کار کا مخالف نہیں رہتا بلکہ خود سرمایہ دار بن کر ذریعہ پیداوار کے مالک کا ساتھی بن جاتا ہے اور مالک سرمایہ دار اور مزدور سرمایہ دار اس بات پر سمجھوتا کرنے کی پیہم جستجو کرتے ہیں۔ کہ منافع (Surplus) کی کونسی ایسی تقسیم سب سے سود مند ہے جس کے ذریعے مزدوروں کے مفادات میں اضافہ اس طریقے سے کیا جائے کہ بڑھوتری سرمایہ کا عمل تیز سے تیز تر ہوسکے۔ یہی سرمایہ دارانہ عدل کا تقاضیٰ ہے۔

ٹریڈ یونین (Trade Union) کے عروج کا دور ١٨٩٠ء سے ١٩٧١ء تک کا ہے۔ اس زمانہ میں بیشتر مغربی یورپی ممالک میں ٹریڈ یونین کی مسابقتی قوت کو قانونی تحفظ حاصل تھا اور اس کی نظریاتی بنیاد (Keynesianism )کا فلسفہ فراہم کرتا تھا۔ مالکان ٹریڈ یونین

کی ہڑتال (Strike) کے عمل سے خائف تھے اور بیشتر سوشل ڈیموکریٹ جماعتیں (جن میں کچھ عرصہ تک امریکاکیDemocratic Party بھی شامل تھی) ٹریڈ یونین کے زیر اثر رہیں اور ٹریڈ یونین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کے تعاون ہی سے ١٩١٩ء میں جرمنی میں ١٩٢٦میں برطانیہ میں ١٩٤٢ء میں اٹلی میں٤٥۔١٩٤٢ء میں فرانس میں اور ١٩٤٥ء میں یونان میں امریکی افواج نے کمیونسٹ انقلاب کو ناممکن بنایا۔ اس پورے دور میں اور آج تک یورپ کی سوشل ڈیموکریٹ جماعتیںامریکا کی ذلیل ترین کاسہ لیس حاشیہ برادر رہی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال تو بلیر (Blair) اور Brown کی جماعتیں ہیں۔ لیکن امریکا کی چاکری کا سب سے واضح جواز Aunerin Bevan کی تحریرات میں ملتا ہے۔ Bevin ١٩٤٥ء تا ١٩٥١ء کی برطانوی لیبر حکومت میں وزیر تھا Social Democratic انفرادیت میں شہوت اور حوس کا غلبہ ہے۔ لہٰذا لبرل معاشرہ کی طرح سوشل ڈیموکریٹ معاشرہ بھی شہوت رانی اور ہوس پرستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ لبرل ازم اور سوشل ڈیموکریسی دونوں مذہب دشمن نظریات ہیں انہوں نے قدیم عیسائی معاشرہ کو یورپ میں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے اور جس معاشرت کو فروغ دیاہے وہ نہایت غلیظ، پلید، گھنائونی اور نجس معاشرت ہے۔ لبرل ازم اور سوشل ڈیموکریسی انسانی معاشرت کو حیوانیت میںڈبونے کا ذریعہ بنے ہیں۔

١٩٧١ء کے بعد سے ٹریڈ یونینز کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کارپوریٹ ملکیت (Corporate Property) کا فروغ ہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام زندگی فروغ پاتا ہے۔ ذاتی ملکیت (Private Property) ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور اس کی جگہ Corporate Property لے لیتی ہے کارپوریٹ ملکیت میں ملکیت (Ownership) اور اختیار (Control) کو علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ کارپوریشن کے قانونی مالک وہ لاکھوں افراد ہوتے ہیں جو کمپنی کے حصص (Shares) سٹہ کے بازار (Stock Market) میں خریدتے بیچتے رہتے ہیںیہ بالکل فرضی (Fictional) ملکیت ہوتی ہے کیوں کہ یہ لاکھوں افراد کارپوریشن کے کاروبار اور اس کی پالیسیوں کو متعین کرنے میں کوئی حصہ نہیں لے سکتے۔ ان کا سالانہ اجتماع عام (Annual General Meeting) محض ضابطہ کی کارروائی ہوتی ہے۔

کارپوریشن کے کرتا دھرتا اور بااختیار چلانے والے اس کے منیجر (Manager) ہوتے ہیں۔ ان منیجروں کا انتخاب ان کی اس صلاحیت کے مطابق کیا جاتاہے کہ وہ کارپوریشن کو استعمال کرکے اس کے منافع میں کس تیزی سے اضافہ کرسکتے ہیں۔ ان منیجروں کا انتخاب اور کسی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ منافع میں مستقل اضافہ کرنے سے قاصر رہ جائیں تو ان کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے کیوں کہ کارپوریشن کے دیوالیہ (Bankrupt) ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن ایک شخص قانونی (Legal Person) کی حیثیت اختیارکرتی ہے ۔اس کا مقصد وجود (Raison D’etre) صرف اور صرف اپنے سرمایہ کی رفتار بڑھوتری میں اضافے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ کارپوریشن سرمایہ کی تجسیم ہے۔ سرمایہ دارانہ (کارپوریٹ) ملکیت سے مراد سرمایہ کی ملکیت ہے۔ اس نظام میں مالک صرف سرمایہ یعنی حرص اور حسد ہوتا ہے۔ باقی سب منیجر، حصص رکھنے والے صارف ،ملازمین ،سرمایہ کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ سب اس بات پر مجبور رہتے ہیں کہ اپنی تمام توانائیاں

بڑھوتری سرمایہ برائے بڑھوتری سرمایہ کے مقصد کے حصول میں مستقل کھپاتے ہیں۔ وہ سب یہ کرنے پر زندگی بھر مجبور رہتے ہیں۔ آزادی کا یہی مطلب ہے۔ آزادی کا اور کوئی مطلب تاریخ میں واضح نہیں ہوا۔ تعجب ان پر ہے جو آزادی کو عبادت کے ہم معنی گردانتے ہیں۔

خرد کا نام جنوں رکھ یا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

جب سب لوگ سرمایہ کے غلام بن جاتے ہیں تو طبقوں کا وجود لازماًبتدریج ختم ہوجاتا ہے۔ سب ہی سرمایہ کے غلام ہیں کیا مزدور کیا منیجر، کیا ریاست کا کارندہ (سرمایہ کی غلامی کا مقصد نفس کو حرص اور حسد کے شیطانوں کے سپرد کردینا ہے) تو طبقاتی کشمکش لازماً لایعنی ہوجاتی ہے اور وہ واحد اجتماعیت جو سرمایہ دارنہ نظام زندگی نے تعمیر کی تھی۔ یعنی مزدورں کی اجتماعیت اور جس نے مذہبی اجتماعیت کی جگہ لی تھی۔ لازماً تحلیل ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں سوشل ڈیموکریسی لبرل ازم میں ضم ہوجاتی ہے۔ کارپوریٹ ملکیت کے غلبہ کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ عدل قائم نہیںہوتاہے بلکہ ارتکاز قوت اور دولت میں اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے۔ گو کہ معاشرتی عمل (بالخصوص سرمایہ دارانہ تعلیم اور ہنر سازی (Education and Training) کے ذریعہ ہر فرد Human Capital بن جاتا ہے لیکن سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں شمولیت کے مواقع بتدریج محدود ہوتے جاتے ہیں۔ لہٰذا دور حاضر کی سوشل ڈیموکریسی طبقاتی مسابقت کا ذریعہ نہیں سرمایہ دارنہ شمولیت (Capitalist Inclusiveness) کا جواز فراہم کرتی ہے۔

سوشل ڈیموکریسی کا تصورِ ریاست:

سوشل ڈیموکریسی جو سرمایہ دارانہ ریاست بناتی ہے اس کو ویلفیئر اسٹیٹ (Welfare State) کہتے ہیں۔ ابتداً سوشل ڈیموکریٹ سمجھتے تھے کہ ویلفیئرا سٹیٹ کے قیام کا بنیادی ذریعہ قومی کارپوریشن کا قیام ہوگا۔ چناں چہ Eduard Bernstein جو جرمنی کے اولین سوشل ڈیموکریٹ مفکرین اور مبلغین میں سے تھا جرمنی کے ریلوے نظام کو وہ ماڈل تصور کرتا تھا جو سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ١٩٤٥ء سے ١٩٦٥ء تک کئی سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں نے نجی سرمایہ دارانہ شعبوں کو قومی کارپوریشنوں کے طور پر چلایا لیکن عموماً یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ قومی اور نجی کارپوریشن کے عمل میں کوئی واضح فرق نہ تھا اور قومی کارپوریشنوں کی کارفرمائی کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ عدل کے فروغ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہ ہوا۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ نجی کارپوریشنوں کی طرح قومی کارپوریشنوں پربھی سرمایہ کی ملکیت قائم رہتی ہے اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے عمل کوطابع (Transcend) کرنے سے وہ بھی اتنی ہی قاصر (Ineffective) رہتی ہیں جتنی نجی کارپوریشن سوشل ڈیموکریٹ حکومتوں نے اپنی مالیاتی (Fiscal) اور زری (Monitary) پالیسیوں کے ذریعہ ان لوگوں کے لیے جو بڑھوتری سرمایہ کے عمل سے بالواسطہ متعلق نہ تھے یہ اس سے خواطر خواہ استفادہ نہیں کررہے تھے۔ سہولیات زندگی بالخصوص تعلیم، علاج، رہائش اور سفر کی سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کیں اور سوشل ڈیموکریٹ مفکرین نے کہا کہ Human #Rightsکے ساتھ ساتھ ریاست کو Social rights کی ضمانت بھی فراہم کرنی چاہے اور ہر فرد کو ایک متعین معیارِ زندگی (

Basic Standard of Living) پر گزر بسر کرنے کا مکلف بنانا چاہیے۔ اور اس متعین معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ ہوتا رہنا چاہیے کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی حصول لذات اور فروغ شہوات کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔

چناں چہ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل ریاستی ڈھانچہ (Structure) میں کوئی واضح فرق برقرار نہ رہ سکا۔ سوشل ڈیموکریٹ ریاستیں لبرل ریاستوں کی طرح نمایندہ دستوری جمہوریتیں (Representative Constitutional Republic) ہوتی ہیں اور اب یونینوں کا ان سوشل ڈیموکریٹک ریاستی نظاموں میں کوئی خاص مقام باقی نہیں رہ گیا ہے۔ لہٰذا مالی وسائل جمع کرنے میں جو مشکلات لبرل ریاستوں کے سامنے آتی ہیں انہی مسائل کا سامنا سوشل ڈیموکریٹ ریاستوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک حکومتوں کی مالی ضرورتیں لبرل حکومتوں سے زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ لبرل حکومتوں کی طرح سوشل ڈیموکریٹ حکومتیں سرمایہ دارانہ نہ ختم ہونے والی عالمی جنگی مہمات کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ وہ سب امریکا کی باج گزار حلیف ریاستیں ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ڈیموکریٹ حکومت کو عوام کی ایک بڑھتی ہوئی اکثریت کے لیے ایک بڑھتا ہوا معیار زندگی بھی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔ لیکن لبرل حکومتوں کی طرح ان کی محصولیاتی صلاحیت (Taxation Capability) جمہوری عمل کی پابند اور لازماً محدود ہوتی ہے۔

بیشتر سوشل ڈیموکریٹ حکومتیںجلدیابدیر ریاستی مالیاتی بحران (Fiscal Crises of the State) کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔

١… چوں کہ سرمایہ دارانہ عمل لازماً سرمایہ کی مرکزیت (Concentration) کو فروغ دیتاہے اور سرمایہ کی بڑھوتری (Accumulation) کا مطلب ہی اس کی Concentretion ہے لہٰذا جیسے جیسے سرمایہ دارانہ چکر تیز ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے سے باہر پھینکتا چلا جاتا ہے۔ آج مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاںٹیکس دینے والوں کی تعداد ٹیکس نہ دینے والوں سے زیادہ ہو۔ وہ لوگ جو اپنی گزر بسر کرنے کے لیے اتنا نہیں کماتے جو ان کی کفالت کرسکے۔ایسے لوگ بچت کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہیں اور ان کا حکومت کی امداد اور قرضوں کی بنیاد پر گزارا ہوتا۔ مغربی یورپ میں شرح بے روزگاری ١٤ فی صد اور امریکا میں٨ فی صد ہے اور اس میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کروڑوں بوڑھے بچے، طالب علم اور غریب ( امریکا میں تقریباً ٢٠ فی صد آبادی غربت کی سطح (Below the povery line) پر زندگی بسر کرتی ہے) حکومت پر مستقل انحصار کرتے ہیں۔ ہر مغربی یورپی اور شمالی امریکی ملک میں حکومت کے سوشل اخراجات (Social Expenditure) ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

٢… دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ معیارِ زندگی کم کرنے کو تیار نہیں۔ مثلاً ہرفرد معیارِ زندگی کو مستقل بڑھاتے رہنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری گردانتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ سب لوگ سرمایہ داری پر ایمان لے آئے ہیں اور سرمایہ داری کا تو مقصد ہی فروغ لذات، شہوات اور آزادی کے علاوہ کچھ نہیں۔

یقینا سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ایسے بحرانوں سے دوچار ہے جن کا اس کے پاس کوئی حل موجود نہیں اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جستجو

عبث نظر آتی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ اور لبرل پالیسیوں میں فرق کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور سوشل ڈیموکریٹک حکومتیں عوام سے کیے ہوئے ویلفیئر کو فروغ دینے والے وعدوںسے بھی گریز کررہی ہیں۔ عملاً آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد معدوم ہوتی جارہی ہے اور سرمایہ دارانہ مفکرین سرمایہ دارانہ عوام کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ظلم برداشت کرنا اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا کوئی متبادل موجود نہیں۔

سوشل ڈیموکریسی اور اسلام:

آج جب کہ مغرب سرمایہ دارانہ عدل کے قیام سے مایوس ہوگیا ہے دنیا بھر کی اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ عدل کی وکیل بن کر سامنے آرہی ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی نے اسلامی سیاسی جماعتوں کو بے حد متاثر کیا۔ جماعتِ اسلامی کا حالیہ منشور اور اخوان المسلمون کا ٢٠١٢ء کے انتخابات کا منشور سوشل ڈیموکریٹک تجزیوں اور پالیسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ جماعتیں حکومت الٰہیہ کو ویلفیئر اسٹیٹ تصور کرتی ہیں۔ ان کے منشوروں میں نفاذِ شریعت کا ذکر تو دبا ہوا ہے لیکن ہیومن اور سوشل رائٹس (Human and Social Rights) کی فراہمی کے دعو ے نہایت بلند آھنگ ہیں۔ یہ قومی دستور کی تقدیس کی قائل ہیں اور ان کا تصورِ ریاست Locke اور Jeffer son سے ماخوذ ہے۔ ریاست کی جو ذمہ داریاں یہ تفویض کرتے ہیں ان کا امام ماوردی، امام ابویعلٰی امام ابن خلدون اور امام محمد رحمہم اللہ کی سیاسی تصنیفات میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ریاست اسلامی کی جو خصوصیات اسلامی جماعتوں کے مفکرین بیان کرتے ہیں وہ چند احادیث اور آیات کی ایسی تشریح پر مبنی ہیں جو اصولِ تفسیر اور اصولِ تاویل الحدیث سے صرفِ نظر کرکے مرتب کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت سوشل ڈیموکریٹک ویلفیئر اسٹیٹ نہ کبھی رہی ہے نہ کبھی ہوگی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اسلام سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد نہیں سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے انہدام کی جدوجہد ہے۔

#اسلامی جماعتوں نے سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈہ اپناکر جو بنیادی غلطی کی ہے وہ یہ ہے کہ اس ایجنڈ ے کے تحت معاش کو حصول معاد کے ذریعہ کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حصولِ معاش ایک مقصد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کو خود ایک مستقل مقاصد شریعت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ریاستی جدوجہد تعمیر معاشرت اور اصلاح انفرادیت کے عمل کا ذریعہ نہیں رہتی اور اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ انفرادیت، معاشرت اور ریاستی صف بندی کے ارتباط سے صرف نظر کرلیتی ہیں۔ ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام کی جدوجہد ایک سرمایہ دارانہ معاشرت میں ڈوباسرمایہ دارانہ فردہی کرسکتا ہے۔ اسلامی شخصیت سازی کا ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اسلامی معاشرتی صف بندی سے اس کا کوئی تعلق ہے۔اسلامی سیاسی تعلیمات اور سوشل ڈیموکریسی میں وہی تعلق ہے جو ایمان اور کفر، اور نور اور تاریکی اور حق اور باطل میں ہے۔ یہ ایک دوسرے کی رد ہیں

adfly